کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) دو برس قبل بھارتی زیر انتظام کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات کے خاتمے کے بعد کانگریس پارٹی کے کسی بڑے رہنما کا یہ پہلا دورہ کشمیر ہے۔ راہول گاندھی سرینگر میں کئی اہم سیاسی شخصیات سے ملاقات کر رہے ہیں۔
کانگریس پارٹی کے سرکردہ رہنما راہول گاندھی نو اگست پیر کی شام کو سری نگر پہنچے تھے جہاں پارٹی کے ریاستی رہنماؤں نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ منگل کے روز انہوں نے کانگریس پارٹی کے نئے دفتر کا افتتاح کیا اور اس موقع پر کشمیر کے حوالے سے مرکزی حکومت کی پالیسیوں پر شدید نکتہ چینی بھی کی۔
سرینگر میں پارٹی دفتر کے اندر کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’مرکز کی جانب سے جموں و کشمیر پر حملہ کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب کشمیر واحد ریاست نہیں ہے جس پر مرکز کے حملے ہو رہے ہوں بلکہ ملک کی دیگر غیر بی جے پی ریاستوں پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کشمیر پر ڈائریکٹ حملہ ہو رہا ہے اور دیگر ریاستوں پر بالواسطہ۔‘‘
راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ ملک کے تمام ادارے، یہاں تک کہ عدالتیں بھی مرکزی حکومت کے حملوں کی زد میں ہیں۔ انہوں نے بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا اور صاف شفاف انتخابات کے مطالبے کو دہرایا۔ تاہم دفعہ 370 کی بحالی کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا اس وقت حکومت کے شدید دباؤ میں ہے اور وہ آواز تو اٹھاتے ہیں تاہم اسے دبا دیا جاتا ہے اور بیشتر میڈیا ادارے ان کی باتوں کو نشر کرنے یا شائع کرنے سےگریز کرتے ہیں۔ آج بروز منگل بھی دیکھنے میں یہی آيا کہ راہول گاندھی نے کشمیر میں جو کچھ بھی کہا وہ بھارتی میڈیا میں شائع نہیں ہوسکا۔
پانچ اگست 2019 میں جب مودی حکومت نے کشمیر کی دفعہ 370 کو ختم کیا تو اس کے کچھ دن بعد ہی راہول گاندھی نے بعض دیگر کانگریسی رہنماؤں کے ساتھ کشمیر کا دورہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم مودی حکومت نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی تھی اور سرینگر ایئر پورٹ سے ہی انہیں واپس بھیج دیا تھا۔
کانگریس دفتر کے افتتاح کے بعد راہول گاندھی نے معروف کھیر بھانی مندر کا دورہ کیا اور پھر معروف مقام حضرت بل کی بھی زیارت کی۔ راہول گاندھی کے ساتھ کارکنان کی ایک بڑی تعداد تو دیکھی گئی تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست میں اس وقت جو مایوسی اور بے چینی ہے اس پر اس دورے کا کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
کشمیر کے معروف صحافی اور تجزیہ کار الطاف حسین کا کہنا تھا کہ کشمیر کے تعلق سے تقریبا تمام بھارتی رہنماؤں کا موقف ایک ہی رہا ہے اور بس طریقہ کار میں تھوڑا فرق ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں انہوں نے کہا، ’’بعض ہند نواز رہنما ان کی آمد سے خوش ہو سکتے ہیں، تاہم اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’بھارتی رہنما کشمیر کو مہرا بنا کر ملک کے دیگر حصوں میں سیاست کرتے ہیں، ان کا کشمیریوں سے کوئی زیادہ سروکار نہیں کہ آخر وہ کیا چاہتے ہیں۔ کانگریس پارٹی نے کشمیر کا کم استحصال نہیں کیا ہے۔ اندرا گاندھی نے بھی کشمیریوں کے ساتھ جو کیا تھا وہ کیا کم ہے۔‘‘
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 اگست میں کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس وقت سے جموں و کشمیر ایک علیحدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے جبکہ لداخ کو اس خطے سے الگ کر کے ایک الگ مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گيا ہے۔
گزشتہ دو برس سے بھارت کی ہندو قوم پرست مودی حکومت گورنر کے ذریعے براہ راست کشمیر کا انتظام سنبھالتی ہے اور تمام مقامی اداروں کے اختیارات منسوخ ہیں۔ مقامی لوگوں کے بارے میں کسی بھی فیصلہ سازی میں مقامی کشمیری رہنماؤں کا اب کوئی عمل دخل نہیں ہے اور سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کے نظریات و پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔
دو برس قبل مودی حکومت نے دفعہ 370 کو ختم کرنے کے لیے کشمیر میں کرفیو جیسی سخت بندشیں عائد کر دی تھیں اور سینکڑوں کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس میں سے بیشتر اب بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ بہت سی سخت بندشیں اب بھی عائد ہیں۔