اگر فردوس بر روئے زمین است ہمین است و ہمین است و ہمین است
امیر خسرو نے کشمیر کی تعریف میں یہ شعر کہا تھا کہ روئے زمین پر اگر کہیں جنت ہے تو وہ یہیں ہے، یہیں ہے۔ آج وہی جنت لہولہان ہو چکی ہے۔وادیء چنار کشت وخون سے لالہ زار ہو چکی ہے۔ کشمیری نوجوان پیلٹ گن کی گولیوں کے نشانے پر ہیں،اب کلسٹر بموں سے تباہی پھیلائی جارہی ہے۔وادی میں ہر طرف تباہی و وحشت کے مناظر جابجا بکھرے پڑے ہیں۔عزت مآب کشمیری بہنوں کی بے حرمتی کا سلسلہ جاری ہے وہ مظلوم کشمیری خواتین کی داد رسی کون کرے گا؟۔ ٹاڈا اور پوٹا جیسے سیاہ قوانین کے تحت ہزاروں کشمیری پابند سلاسل ہیں۔ حریت رہنمائوں کو نظر بند رکھا گیا ہے۔وادی کے چپے چپے پر بھارتی قابض افواج کا پہرہ ہے۔نریندر مودی نے کشمیر پر ناجائز تسلط کو جائز کرنے کے لئے صدارتی آرڈیننس کے تحت کشمیر کے خصوصی درجہ کی ضامن بھارتی آئین کی دفعات 35 اے اور 370 کا خاتمہ کرکے پاکستان کے سینے میں چھرا گھونپ دیا ہے۔آرٹیکل 370 کی بدولت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔اسی آرٹیکل کے مطابق کشمیر کے شہریوں کے لئے جائیداد،شہریت اور بنیادی انسانی حقوق سمیت دیگر قوانین عام بھارتیوں سے مختلف ہیں۔اسی دفعہ کے تحت ہندوستان کا کوئی شہری اور کمپنیاں بھی چاہے وہ نجی ہوں یا سرکاری جموں و کشمیر میںجائیدادیں نہیں خرید سکتے تھے اور خطے کے اندر بھی سرکاری ملازمتوں پر بھی غیر کشمیریوں پر پابندی عائد تھی اب دوسری ریاستوں سے ہندووئں کو یہاں آباد کرنے کی رکاوٹ دور ہو گئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز کی بستیاں بسانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔دفعہ 35اے کے تحت بھی کشمیری عوام کو خصوصی اختیارات حاصل تھے۔دفعات کے خاتمے سے یہ سب چھین لئے گئے ہیں۔وہ حفاظتی دیوار گرادی گئی ہے اور انہیں مظلوم فلسطینیوں کی طرح بے گھر کر دیا ہو جائیں گے۔کروڑوں کی تعداد میں غیر کشمیری ہندو یہاں آکر بسیں گے اور ان کی زمینوں اور وسائل پر قابض ہو جائیں گے۔وزیر اعظم عمران خان کے دورہء امریکہ کے دوران امریکی صدر نے کشمیر پر ثالثی کا کردار ادا کرنے ک پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نے مجھ سے ثالثی کی گزارش کی تھی۔ٹرمپ کے اس بیان کو بھارت نے مسترد کر دیا تھا اور اس کے فوراً بعد کشمیر میں اضافی فوجی اتارے گئے۔کشمیر کو چھائونی میں تبدیل کر دیا گیا۔جبکہ ٹرمپ کے حالیہ بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر اعتماد میں لیا گیا ہے۔تشویش کا پہلو یہ ہے کہ کشمیریوں کے لئے یہ نیک شگون نہیں بلکہ فوج کی بڑی تعداد کو وادی میں تعینات کرکے عوام کو خوفزدہ کیا گیا ہے۔
مودی حکومت نے اتنا اہم فیصلہ کرنے سے قبل زبردست پیشگی تیاری کی تھی۔ریاست میں اچانک اضافی نفری ،انٹر نیٹ سروس و سوشل میڈیا کی بندش سمیت تعلیمی ادارے بھی بند اورمتناعی احکامات بھی نافذ کر دئیے گئے تھے۔باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ سازش رچی گئی کیونکہ اب مسلم اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اور بڑی تعداد میں ہندئو بستیوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس دفعہ 370 کی ہمیشہ مخالف رہی ہے اور اس کے خاتمے کے لئے بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا۔ مودی کے دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے سے ہی اس قدام کا اندازہ لگایا جا چکا تھا۔حکومت نے لداخ کو کشمیر سے الگ کر دیا ہے یہاں آبادی اگرچہ کم ہے لیکن رقبے کے لحاظ سے کافی بڑا علاقہ ہے کشمیر میں یونین ٹیریٹری ہے اس لئے واہاں صوبائی حکومت ہو گی لیکن لداخ کو اس حق سے بھی محروم کر دیا گیاہے ۔کیا کشمیریوں کے جذبہ حریت کو بندوق کی نوک پر دبایا جا سکتا ہے؟۔ تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدین آزادی کا لہو رائیگاں نہیں جاتا۔
ریاست جموں و کشمیر سات حصوں میں منقسم ہے اس میں سے تین جموں، لداخ اور کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے ۔ گلگت، بلتستان اور آزاد کشمیر ہے۔اکسائے چین کا علاقہ چین کے پاس ہے ۔ جموں و کشمیر میں بہت جلد اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں اس لئے مودی حکومت چاہے گی کہ وہاں کے سارے ہندو خوش ہو کر بی جے پی کو ووٹ دیں۔خصوصی آرٹیکل ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا، جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔۔ اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیاتی، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر جموں و کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا تھا۔بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔1954 ء کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 ‘اے’ آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔آرٹیکل 35 ‘اے’ کے تحت غیر کشمیری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی تھیں۔۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی تھی۔جموں و کشمیر کی کوئی خاتون اگر ہندوستان کی کسی دوسری ریاست کے شہری سے شادی کر لے، تو اس خاتون کی جموں وکشمیر کی شہریت ختم ہو جاتی تھی۔اگر کوئی کشمیری خاتون پاکستان کے کسی شخص سے شادی کرتی ہے تو اس کے شوہر کو بھی جموں و کشمیر کی شہریت مل جاتی تھی۔آرٹیکل 370 کے تحت کشمیر کے حوالے سے کسی قسم کی قانون سازی کے لیے ریاست کی منظوری لینا پڑتی تھی۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی ہندوستانی شہریت مل جاتی تھی۔ جموں و کشمیر میں ہندوستان کے ترنگے یا قومی علامتوں کی بے حرمتی جرم نہیں تھی اور یہاں ہندوستان کی سب سے بڑی عدالت کا حکم قابل عمل نہیں ہوتا تھا۔جموں و کشمیر کا جھنڈا الگ ہوتا تھا۔جموں و کشمیر میں باہر کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے تھے۔کشمیر میں اقلیتی ہندووں اور سکھوں کو 16 فیصدریزرویشن نہیں ملتا تھا۔آرٹیکل 370 کی وجہ سے جموں و کشمیر میں آر ٹی آئی(رائٹ ٹو انفارمیشن) نافذ نہیں ہوتا تھا۔جموں و کشمیر میں خواتین کے حوالے سے شرعی قانون نافذ تھا جبکہ پنچایت کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔جموں و کشمیر کی اسمبلی کی مدت 6سال ہوتی تھی جبکہ ہندوستان کی دیگر ریاستوں کی اسمبلیوں کی مدت 5سال ہوتی ہے۔
۔حریت کانفرنس کے سربراہ سید علی گیلانی کا اس سلسلے میں گزشتہ رات جاری ہونا والا ٹویٹر پیغام خاص طور پر پوری مسلم دنیا اور تمام عالمی برادری کی فوری توجہ کا مستحق ہے۔ پیغام میں کہا گیا ہے کہ ” بھارتی انسانی تاریخ کی بدترین نسل کشی کرنے والے ہیں، اللہ ہمیں محفوظ رکھے، دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کو اس ٹویٹ کو ہماری زندگیوں کو بچانے کے پیغام کے طور پر لینا چا ہیے، اگر ہم سب ماردیے گئے اور آپ خاموش رہے تو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑیگا”۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط لکھ کر بھارت کے انسانیت کش عزائم سے خبردار کیا ہے جبکہ وقت کا تقاضا ہتے کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں پاکستانی قوم اپنے باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو۔ اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کیلئے ملک میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینے کی تمام ضروری تدابیر اختیار کی جائیں۔ ۔ عالمی برادری کی بھی ناگزیر ذمہ داری ہے کہ بھارت کے جنگی جنون کو لگام دینے میں اپنا کردار موثر طور پر ادا کرے کیونکہ جنوبی ایشیا تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔