تحریر : آر ایس مصطفی قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کا قیام 1993میں عمل میں آیا ،جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنااور حل کیلئے اپنی شفارشات پیش کرنا تھااس مقصد کن لئے اس کن پہلے چیئر مین نوابزادہ نصراللہ خان مقرر کئے گئے جو کہ1996تک چیئر مین رہے۔ان کے دور میں مسئلہ کشمیر پر خصوصی توجہ دی گئی اور مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں اجاگر کیا گیا،اس وقت کمیٹی کے کل 24 ممبران تھے ، جن میں 21اراکین قومی اسمبلی اور تین سینیٹرزشامل تھے۔ مئی 1997سے لیکر اکتوبر 1999تک چوہدری محمد سرور کمیٹی کے چیئر مین رہے اور کمیٹی 26ارکین پر مشتمل تھی۔1999سے لیکر جون 2004تک کشمیر کمیٹی معطل رہی۔ 2004سے لیکر 2007تک چوہدری حامد ناصر چٹھہ 59ممبران پر مشتمل کمیٹی کے چیئر مین رہے۔ اس دور میں بھی کمیٹی نے فقط دورو ں پر توجہ دی اور کمیٹی کی اصل روح کو مکمل نذر کیا گیا۔
2008 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی اور مو لانا فضل الرحمان کو 36ممبران پر مشتمل کمیٹی کا چیئر مین بنایا گیا جس کے چالیس سے اجلاس بلائے گئے مگر کمیٹی شفارشات پیش کرنے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کام نہ کر سکی جبکہ پانچ سال کروڑوں روپے عوام کا پیسہ دوروں اور اجلاس کی مد میں مسلسل خرچ ہوتا رہا۔ 2013 انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بعد وزیراعظم میاں نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان پر اعتماد کا اظہار کیا اور انھیں کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا یا اوراس عہدے کو وفاقی وزیر کے برابر درجہ دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے عدم دلچسپی کامظاہر ہ کیا گیا اور فقط تین اجلاس بلائے گئے جن پر 18کروڑ لاگت روپے آ ئی ۔ 2013 سے آج 2016 تک کشمیر کمیٹی سب سے مہنگی کمیٹی ثابت ہو ئی ہے جس کے صرف تین اجلاس بلائے گئے اور 18کروڑ لاگت روپے آئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کمیٹی کا ایک اجلاس چھ کروڑ میں پڑ رہا ہے۔
Kashmir Violence
دنیا کی سب سے بڑی طاقت عوام ہوتی ہے اور دنیا میں سچ وہی ہوتا ہے جسے عوام تسلیم کرتی ہے کشمیر ی عوام نے آزادی کی جو جنگ شروع کی تھی وہ آج بھی اسی جذبے سے جاری ہے اور بھارت کی سات لاکھ فوج بھی اس عزم میں لچک پیدا نہیں کر سکی۔بھارتی فوج نے کشمیری بستیوں کی بستیاں اور شہر کے شہر تباہ کئے مگر کشمیری عوام کی سچ کی آواز کو دبانے میں ناکام رہی۔جوا ن ، بوڑھے بچے اور خواتین اپنی جان کی بازی لگا رہے ہیں ان بے گناہ کشمیریوں کا خون جو بھارتی درندوں کے ہاتھوں پر ہے۔چشموں اور ندیوں میں میٹھا پانی بہتا تھا مگر اب ان ندیوں میں پانی کی بجائے خون بہتا نظر آتا ہے۔ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق صرف 2015میں 156نہتے کشمیریوں کو بھارتی فوج نے شہید کیا۔ڈیڑھ لاکھ بے گناہ کشمیری گرفتار ہیں جبکہ کشمیری بیواؤں کی تعداد22000تک پہنچ چکی ہے۔یتیم کشمیری بچوں کی تعداد ایک لاکھ ہے اور کشمیری ماؤں بہنوں کے گینگ ریپ سے متاثرہ تعداد لگ بھگ ہے اور 50 ہزارسے زائد افراد گمشدہ ہیں۔
جبکہ تقریباًچھ لاکھ کے قریب ہنر مند افراد بے روز گاری کی زندگی گزاررہے ہیں۔ان دنوں کشمیر میںجیسے ہندوستانی فوج خون کی ہولی کھیل رہی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ،برہان مظفر وانی اور ان کے دو ساتھی شہید ہوئے تھے۔ شہید کمانڈر کی خبرپوری وادی کشمیر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور پھرہزاروں لوگ گھروں سے باہر نکل آئے اور کرفیو کی پابندی توڑتے ہوئے لوگ اس نوجوان شہیدکے آبائی گاؤں ترال پہنچنا شروع ہوئے اور نماز جنازہ میں شرکت کی بھارت نے ہمیشہ کی طرح احتجاج کو دبانے کے لیے کرفیو نافذ کردیا ہے لیکن کشمیری ان اوچھے ہتھکنڈوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اب بھی احتجاج کررہے ہیں۔
جبکہ عوامی جذبے سے گھبراتے ہوئے بھارتی فورسز نے ایک بار پھر وحشیانہ تشدد کا آغاز کردیا ہے جس کے نتیجے میں اب تک کم از کم 40 سے زائد کشمیری شہید اور 1000 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔برہان مظفر وانی کی شہادت نے کشمیر کی تحریک آزادی میں نئی روح پھونک دی ہے کہ آج کشمیر کے ہر نوجوان نے جذبہ شہادت سے سرشارہوکر تحریک آزادی کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ہے۔مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کے تشدد اور فائرنگ سے زخمی ہونے والے کشمیریوں کی بڑی تعداد ہسپتالوں میں موجود ہے جن کی صورتحال انتہائی خوف ناک ہے۔
Sri Maharaja Hari Singh Hospital
سرینگر کے سب سے بڑے ہسپتال سری مہاراج ہری سنگھ ہسپتال میں مریضوں کیلئے بیڈز کم پڑ گئے ہیں اور ایک بیڈ پر دو اور اس سے زائد مریض رکھے گئے ہیں۔ ڈاکٹر دن رات زخمیوں کے علاج اور آپریشن کر رہے ہیں، اس کے باوجود زخمیوں کی صورتحال بہت پریشان کن ہے۔ 90 ایسے مریضوں کے آپریشن کئے جا چکے ہیں جن کی فائرنگ کی وجہ سے بنائی جاچکی ہے اور اکثر نوجوانوں کی ایک آنکھ مکمل خراب ہو گئی ہے۔ خدشہ ہے کئی نوجوان مکمل طور پر بینائی سے محروم ہوچکے ہیںاور ایک ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہوچکے ہیں۔کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں فائرنگ کی وجہ سے بنائی جاچکی ہے اور اکثر نوجوانوں کی ایک آنکھ مکمل خراب ہو گئی ہے۔
مگر تمام عالمی ادارے سوائے مذمتی بیان کے کچھ نہیں کررہے۔پوسٹر بوائے کے نام پہچانے جانے والے برہان مظفر وانی شہیدشوشل میڈیا کے ذریعہ تحریک آزادی میں ایک نئی جان ڈال گئے اور ان کی شہادت نے کشمیر کے ہر نوجوان نے جذبہ شہادت سے سرشارہوکر تحریک آزادی کے جھنڈے کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ہے اور بھارت کی سات لاکھ فوج بھی آج ان نوجوانوں کے سامنے بن بس نظر آتی ہے۔
آج پاکستان حکومت اور تمام قومی جماعتوںکا فرض ہے کہ صرف مذمتی بیان ہی نہ دیئے جائیں بلکہ عملی طور پر کشمیر کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔تمام قومی جماعتیںعالمی برادری کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ سامنے لائے اورعالمی اداروں ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کریں۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر کمیٹی کو اس کی اصل روح کے مطابق اس کو فعال کرے تاکہ کمیٹی کا مقصد ہو اور کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا جا سکے اور عالمی برادری کو باور کروایا جاسکے کہ خطے میںمسئلہ کشمیرکے حل کے بغیر دیر پا امن ممکن نہیں۔