تحریر : مہر بشارت صدیقی تحریک حریت کشمیر کے سربراہ سید علی گیلانی نے پاکستان کی کشمیر کاز سے کمٹمنٹ کے ثبوت کیلئے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کو فعال بنانے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اس کیلئے مولانا فضل الرحمن سے نجات حاصل کرکے کسی ایسے شخص کو آگے لایا جائے جو ہندوذہنیت سے واقفیت رکھتے ہوئے تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈا کی تکمیل کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ نوازشریف حکومت کی کشمیر کاز کیلئے کوششیں اور کاوشیں اپنی جگہ لیکن ہمیں تو ان کی کمٹمنٹ کا اندازہ کشمیر کمیٹی سے ہورہا ہے جس کی قیادت اور اراکین کی اکثریت کشمیر کاز کو نہیں سمجھتی۔ ان میں وہ بھی ہیں جو تقسیم ہند میں کشمیر کی اہمیت نہیں جانتے۔ کیا حکومت کے پاس ایسے لوگ نہیں کہ جو کشمیر جیسے سلگتے مسئلہ پر کمیٹی کی قیادت کریں۔نوازشریف حکومت نے بیرونی محاذ پر کشمیر کاز کیلئے جرات مندانہ موقف اپنایا لیکن اندرونی محاذ پر ان پر کرپشن کے الزامات نے ان کی پوزیشن کو کمزور کیا، کاش ایسا نہ ہوتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں اپنے بیانات سے مسلمانوں اور کشمیریوں کو زد پہنچائی کاش مسند اقتدار پر پہنچ کر وہ نوشتہ دیوار پڑھیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکہ کا کردار مجرمانہ اور اس کی بے حسی شرمناک ہے۔ مودی سرکار کی ضد اور ہٹ دھرمی عالمی قوتوں کیلئے چیلنج اور امت مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے خیر کی توقع رکھنے والے انسانیت پر یقین نہیں رکھتے۔ سید علی گیلانی بزرگ حریت رہنما اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہیں ان کی گفتگو میں ہمیشہ پاکستان کے لئے ایک درد ہوتا ہے وہ پاکستان کو پر امن،دہشت گردی سے پاک اور خوشحال پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کشمیر کمیٹی کے حوالہ سے یہ پہلا بیان نہیں دیا بلکہ ماضی میں بھی ان کے بیانا ت آتے رہے ہیں اور وہ یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
نہ صرف سید علی گیلانی بلکہ دختران ملت مقبوضہ کشمیر کی سربراہ آسیہ اندرابی کے شوہر ڈاکٹر قاسم فکتو جنہیں بھارت نے جیل میں قید کر رکھا ہے انہوں نے بھی برہان مظفر وانی کے شہادت کے بعد شروع ہونے والی تحریک کے بعد بیان دیا تھا اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ کشمیر کمیٹی کو بین الاقوامی سطح پر فعال اور متحرک بنانے کیلئے اس کی نئے سرے سے تشکیل کریں۔ مولانا فضل الرحمان کو اس کمیٹی کی چیرمین شپ سے فارغ کیاجائے کیونکہ ان کی چیرمین کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ کشمیر کمیٹی کا چیرمین کسی غیر سیاسی شخصیت کو ،جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک ہند کی تاریخ، مسئلہ کشمیر کی تاریخی بنیادوں، بین الاقوامی سیاسیات کے ساتھ ساتھ سفارت کاری کاتجربہ رکھتا ہو، بنایاجائے۔ مذکورہ شخصیت کوکشمیر کمیٹی کاچیرمین اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کواس کشمیر کمیٹی کاصدر بنایا جاسکتا ہے اور اس کمیٹی کے تمام ارکان کشمیری ہوںخواہ وہ فی الوقت پاکستان میں، آزاد کشمیر میںیادنیاکے کسی بھی ملک میں رہائش پذیر ہوں۔
کشمیر کمیٹی کے پاکستان اور آزاد کشمیر میں منی سیکرٹریٹ قائم کئے جائیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین ، روس ،جرمنی جاپان، سعودی عرب ، ایران ، ترکی، انڈونیشیا ، ملیشیا ء میں کشمیر کمیٹی کی طرف سے ڈپلومیٹک کشمیر آفس قائم کئے جائیں جہاںکشمیر کاسفارتی عملہ وہاںکے حکمرانوں کے ساتھ مسلسل تعلق قائم کر کے ان کو مسئلہ کشمیر کو اسکے تاریخی پس منظر میںحل کرنے یا اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعہ حل کرنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اسکے ساتھ ساتھ جموںکشمیر کے لوگوں پر بھارتی افواج اور بھارتی پولیس کے ذریعہ ڈھائے جارہے مظالم کو بھی اجاگر کریگا۔قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کا قیام 1993میں عمل میں آیا ،جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنااور حل کیلئے اپنی شفارشات پیش کرنا تھااس کمیٹی کے پہلے چیئر مین نوابزادہ نصراللہ خان مقرر کئے گئے،وہ1996 تک کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہے۔ ان کے دور میں کشمیر کمیٹی 24ممبران پرمشتمل تھی۔ جن میں 21اراکین قومی اسمبلی اور 3سینیٹرزشامل تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم)کے بعد 1997سے 1999تک چوہدری محمد سرور26اراکین پر مشتمل کشمیرکمیٹی کے سربراہ رہے۔
Pervez Musharraf
جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 2004تک کشمیرکمیٹی کو معطل رکھا۔اس کے بعد انہوںنے چوہدری حامدناصر چھٹہ کو 59اراکین پر مشتمل کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا۔چوہدری حامدناصر چھٹہ کے دورمیں کشمیر کمیٹی کے نام پر مختلف ممالک کے دورے کئے گئے لیکن اپنے مقاصد کویکسر نظر اندازکردیاگیا۔2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعدبننے والی مخلو ط نے مولانافضل الرحمان کو36 اراکین پر مشتمل کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقررکیا۔2013 تک پانچ سال تک عوام کا پیسہ صرف دوروںاور اجلا س کی مدمیں مسلسل خرچ ہوتارہا۔میاں نواز شریف نے 2013 میں عام انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد مولانا فضل الرحمان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں دوبار ہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کر دیا۔ مولانا فضل الرحمان اس کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حثیت سے وفاقی وزیر کا درجہ رکھتے ہیں اور وہی مراعات لے رہے ہیں جو ایک وفاقی وزیر کو حاصل ہیں۔مولانا فضل الرحمان کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی کامظاہر ہ کیا گیا اور اب تک صرف تین اجلاس بلائے گئے۔ 2013 سے آج 2016 تک کشمیر کمیٹی سب سے مہنگی کمیٹی ثابت ہو ئی ہے جس کے صرف تین اجلاس پر 18کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔کشمیر کمیٹی جو نیشنل اسمبلی کی 32 قائمہ کمیٹیوں میں سب سے زیادہ بجٹ لینے والی کمیٹی ہے’ زیادہ تر اپنا کام مذمتی بیانات سے چلاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس کمیٹی کے چیئرمین بن کر وفاقی وزیر کی تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ انہیں اسلام آباد میں سرکاری گھر بھی اسی کھاتے میں ملا ہوا ہے۔ چھ کروڑ کا بجٹ اور لاکھوں کی تنخواہیں لینے والی کشمیر کمیٹی کو جو کام بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لیے کرنا چاہیے تھا وہ اس میں بری طرح ناکام ہے۔
اسلام آباد میں بیٹھ کر محض مذمتی بیانات جاری کرنا کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ ایک مذاق ہے۔حالیہ تحریک کشمیر کے بعد مولانا فضل الرحمان کو چاہئے تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کے سامنے بھارت کا بھیانک چہرہ بے نقاب کرتے لیکن انہوں نے وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے کشمیر میں بھارتی مظالم، لائن آف کنٹرول پر بھارتی فائرنگ اور پاکستان پر حملے کے حوالے سے دی جانیوالی دھمکیوں پر بلائی جانیوالی آل پارٹیز کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر کے متعلق ایسا بیان دے دیا جس سے بھارتی لابی خوشی سے نہال ہو گئی۔موصوف نے آل پارٹیز کانفرنس میںیہ کہہ کر کہ پاکستان کے اپنے علاقے فاٹامیںحالات کشمیر سے زیادہ خراب ہیںاور ایسے خراب حالات کے پیش نظر پاکستان کا کوئی حق نہیں بنتا کہ وہ کشمیر کی بات کرے۔ بحیثیت چیئر مین کشمیرکمیٹی ایسی باتیں کر کے بھارت کو پاکستان کے خلاف باتیںکرنے کا جواز فراہم کیا۔ ان کے اس بیان پر آل پارٹیز کانفرنس میں موجود تمام پارٹیوں کے رہنما حیران رہ گئے اور مولانا کے بیان پر شدید حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف پاکستان سمیت پوری دنیا کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف ایک پیچ پر ہے جبکہ دوسری طرف مولانا نے بالکل ہی الٹی بات کہہ دی ہے۔
سید علی گیلانی اس کشمیر کمیٹی پر معترض کیوں نہ ہو جو کشمیر کے نام پر پیسہ تو کھا رہی ہے لیکن کر کچھ نہیں رہی،حریت رہنما کے بیان پر جمعیت علماء اسلام (ف) کے مقامی رہنمائوں جن کی کوئی پہچان نہیں ان کے نام سے ایک بیان چلا جس میں کہا گیا کہ کشمیر کمیٹی کام کر رہی ہے اور جمعیت علماء اسلام ہر سال پانچ فروری کو یو م یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔جن کے ناموں سے بیان چلا شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ پانچ فروری کو نہ صرف پاکستانی قو م بلکہ دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے اس میں کشمیر کمیٹی کا کیا کردار ہے کچھ بھی نہیں۔سید علی گیلانی،ڈاکٹر قاسم فکتو نے جو آواز اٹھائی ہے اس پر حکومت پاکستان کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور کسی ایسی شخصیت کو کشمیر کمیٹی کا چیہئر مین بنانا چاہئے جو کشمیر ی ہو ،کشمیر کے بارے میں جانتا ہو اور بول بھی سکتا ہو،مولانا فضل الرحمان کشمیر کمیٹی کے چیئرمین دعویٰ کرتے ہیں کہ یورپ و دیگر ممالک میں کشمیر پر آواز بلند کرتے ہیں سمجھ نہیں آتی وہ وہاںپشتو میں گفتگو کرتے ہون گے کیونکہ انگریزی کی تو اے بی سی انہیں نہیں آتی،حریت رہنمائوں کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کو بدلنے اور متحرک کرنے کی بات وقت کی آواز ہے۔حکومت اگر ایسا نہیں کرے گی تو کشمیر کے بعد پاکستان سے بھی نہ صرف کشمیر کمیٹی بلکہ کمیٹی بنانے والوں پر بھی انگلیاں اٹھنی شروع ہو جائیں گی۔