تحریر : سید انور محمود برہان وانی کو اب سے کچھ عرصہ پہلے تک بہت کم لوگ جانتے تھے، لیکن آج بلاشبہ تحریک آزادی کشمیر کا یہ شہید مجاہد پوری دنیا میں مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی ایک پہچان بن گیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسکول پرنسپل کے بیٹے اور اسکول میں نمایاں نمبرز حاصل کرنے والا کشمیری طالب علم برہان وانی صرف 15 سال کی عمر میں اپنے سارئے سکھ چین چھوڑ کر تحریک آزادی کشمیر کا سپاہی بن گیا۔ اسے یقین تھا کہ یہی وہ راستہ ہے جو بالآخر ایک دن کشمیریوں کو صبح آزادی کی طرف لے جائے گا۔ برہان ایک ذھین نوجوان تھا ، اس نے جدید ٹیکنالوجی کو کشمیر کی آزادی کی تحریک کےلیے استعمال کیا۔ وہ فیس بک پر ایسی وڈیوزاپ لوڈ کرتا جن سے بھارتی فورسز کے مظالم بے نقاب ہوتے تھے۔ وہ کشمیری نوجوانوں کوتحریک آزادی کا حصہ بننے کے لیے پیغام دیتا کہ وہ بھارتی ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
اس ذہین مجاہد نے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے دنیا بھرکو بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں بین الاقوامی میڈیا پر پابندی ہے، اس لیے غیر جانبدار میڈیا مقبوضہ وادی کے لوگوں پر ہونے والے جبر کی صحیح اور سچی عکاسی کرنے سے قاصر ہے، لیکن برہان وانی نے پوری دنیا کو بھارتی جبر اور ستم کی اصل حقیقت سے روشناس کیا۔ہندوستانی میڈیا کے مطابق برہان وانی نے اپنے بڑے بھائی خالد وانی پر ہندوستانی فوجیوں کے تشدد کے بعد ہتھیار اٹھائے۔خالد وانی کو سال 2010 میں مبینہ طور پرآزادی پسندوں کی بھرتیاں کرنے کے الزام میں ہندوستانی فورسز نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ خالد وانی کو گزشتہ سال 14 اپریل 2015 کو ہندوستانی فوج نے ترال کے علاقے میں ایک ‘جعلی مقابلے’ میں شہید کر دیا تھا۔
آٹھ جولائی2016ء کو ایک جھڑپ میں بھارتی فورسز نے بڑی بے دردی سے برہان وانی کو بھی شہید کردیا، برہان وانی کی شہادت کے وقت تک شاید پاکستانی میڈیا بھی اس کو نہیں جانتا تھا۔نوجوان برہان وانی کی شہادت پر پوری دنیا کا میڈیا اس پر تبصرے کررہا ہے اور حیران ہے کہ کیسے یہ سب اچانک ہوگیا، خود بھارتی میڈیا اس پر حیران کن تبصرئے کررہا ہے، انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ ‘‘ وانی اپنی موت کے ساتھ ہی ایک نیا علیحدگی پسند کشمیریوں کا عسکری چہرہ بن گیا ہے’’، جبکہ درحقیقت برہان وانی اپنی شہادت کے ساتھ ہی تحریک آزادی کشمیر کا ایک نیا چہرہ ہے۔ ایک اور انڈین اخبار نے لکھا ہے کہ ”برہان وانی آج اپنی قبر سے جس طرح کشمیریوں کو تحریک دے رہا ہے، شاید وہ زندہ رہ کر ایسا نہ کر سکتا‘‘۔برہان وانی کو پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا گیا۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام کی ہمیشہ کی طرح آج بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش اور پاکستان سے والہانہ محبت عروج پر ہے اور وہ مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ دئے رہے ہیں۔
Kashmir Violence
اب تک مظاہرین پر فورسز کی بے تحاشا فائرنگ سے 50 سے زائد افراد ہلاک اور 2000 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ کرفیو اور ناکہ بندی کے باعث پوری وادی کے مکین آٹھ جولائی سے محصور ہیں اور مواصلات کے تمام ذرائع پر پابندی کی وجہ سے مکین دُنیا سے ہی نہیں ایک دوسرے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں۔ مواصلاتی رابطوں پر لگی پابندی کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل ظاہر کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انٹرنیٹ اور فون رابطوں کو بحال کیا جائے۔ آج سری نگر کا سب سے بڑا ہسپتال بھارتی بربریت کا شکار ہونے والے نوجوان کشمیریوں سے بھرا پڑا ہے۔ پاکستان کا نام لینے پر ان کی آنکھوں میں فائر کر کے بھارتی درندوں نے انہیں نابینا کردیا، دوسری جانب پاکستان میں کشمیر کاز کو جس غیر سنجیدگی سے لیا گیا یہ مجاہدین کے جذبہ آزادی کی توھین ہے۔ کشمیر کمیٹی سوئی ہوئی ہے اور کمیٹی کے موجودہ چیئرمین مولانا فضل الرحمن جو پاکستان میں سب سے بڑئے مفاد پرست سیاستدان ہیں ان کے پاس اپنے دوسرئے سیاسی مفادات کی وجہ سے کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت نہیں ہے۔
آجکل وزیراعظم کو پاناما لیکس سے بچانے میں لگےہوئے ہیں۔قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی برائے کشمیر کا قیام 1993میں عمل میں آیا ،جس کا مقصد مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنااور حل کیلئے اپنی شفارشات پیش کرنا تھااس کمیٹی کے پہلے چیئر مین نوابزادہ نصراللہ خان مقرر کئے گئے، پھر مختلف ادوار میں مختلف اشخاص کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہے۔ 2008 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلز پارٹی نے مخلوط حکومت بنائی اور مو لانا فضل الرحمان کو 36ممبران پر مشتمل کمیٹی کا چیئر مین بنایا گیا جس کے چالیس بے مقصد اجلاس بلائے گئے
کمیٹی صرف سفارشات پیش کرنے کے علاوہ کوئی خاطر خواہ کام نہ کرسکی جبکہ پانچ سال میں کروڑوں روپے دوروں اور اجلاس کی مد میں ہضم کرلیے گئے۔ 2013 کے انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے سات ماہ کے طویل انتظار کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا اوراس عہدے کو وفاقی وزیر کے برابر درجہ دیا گیا۔ کشمیر کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت میں مولانا ایک وزیر کے برابر مراعات لیتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے کشمیر کے معاملے میں ہمیشہ عدم دلچسپی کامظاہر ہ کیا گیا اور اب تک صرف تین اجلاس بلائے گئے۔ 2013 سے آج 2016 تک کشمیر کمیٹی سب سے مہنگی کمیٹی ثابت ہو ئی ہے جس کے صرف تین اجلاس پر 18کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے۔
Fazal ur Rehman
کشمیر کمیٹی جو نیشنل اسمبلی کی 32 قائمہ کمیٹیوں میں سب سے زیادہ بجٹ لینے والی کمیٹی ہے‘ زیادہ تر اپنا کام مذمتی بیانات سے چلاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن اس کمیٹی کے چیئرمین بن کر وفاقی وزیر کی تنخواہ اور مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ انہیں اسلام آباد میں سرکاری گھر بھی اسی کھاتے میں ملا ہوا ہے۔ چھ کروڑ کا بجٹ اور لاکھوں کی تنخواہیں لینے والی کشمیر کمیٹی کو جو کام بین الاقوامی سطح پر کشمیر کاز کے لیے کرنا چاہیے تھا وہ اس میں بری طرح ناکام ہے ۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر محض مذمتی بیانات جاری کرنا کشمیر کی تحریک آزادی کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ اور پھر اس سے بڑا مذاق اور کیا ہو گا کہ سرکاری طور پر 19جولائی کو یوم سیاہ منانے کا فیصلہ کیا گیا جو کشمیری عوام یوم الحاق پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔ فیصلہ اگرچہ بعد میں واپس لے لیا گیا مگر چھ کروڑ کا بجٹ ہضم کرنے والی کشمیر کمیٹی کی قابلیت ضرور عیاں ہو گئی ہے جو کشمیر کی تاریخ سے ہی نابلد ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں موجود ہے، مسئلہ کشمیر عالمی توجہ چاہتا ہے اسے عالمی سطح پر پیش کرنےوالے کو کم از کم انگریزی زبان پر تو عبور ہونا چاہیئے۔مولانا فضل الرحمن انگریزی زبان نہیں جانتے جبکہ انٹرنیشنل فورم پر بات کرنے کے لیے کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو انگریزی بول چال میں مہارت رکھتا ہو اور دنیا کے سامنے کشمیر کے موقف کو سلیقے اور متاثر کن انداز میں پیش کرنے کا ہنر جانتا ہو۔ وزیر اعظم نواز شریف اگر کشمیریوں کے ساتھ مخلص ہیں تو فوراً کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کو تبدیل کریں اور کسی قابل شخص کو اس کا سربراہ مقرر کریں کیونکہ یہ معاملہ انٹرنیشنل فورم پر اُٹھانے اور لابنگ کرنے کا متقاضی ہے۔
حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر کمیٹی کو اس کی اصل روح کے مطابق فعال کرے تاکہ کمیٹی کا مقصد پورا ہو اور عالمی برادری کو باور کروایا جاسکے کہ خطے میں مسئلہ کشمیرکے حل کے بغیر دیر پا امن ممکن نہیں۔مولانا فضل الرحمان اس سے پہلے بھی کشمیر کمیٹی کے چیرمین رہے ہیں لیکن صرف اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کے انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ کشمیر کے مسلئے پر نہ پہلے کچھ ہوا ہے اور نہ اب ہوگا، لہذا جتنا جلد ہوسکے مولانا کی جگہ کسی ایسے شخص کو کشمیر کمیٹی کا چیرمین بنایا جائے جو اپنے ذاتی مفادات کے بجائے کشمیر کے مسئلے کو دنیا کے سامنے اجاگر کرئے۔