تحریر : نسیم الحق زاہدی روسو کہتا ہے کہ ”میں پر امن غلامی کی بجائے خطروں سے گھری آزادی کو ترجیح دیتا ہوں۔ہر سال پانچ فروری کو عام تعطیل کرکے ملک بھر میں یوم یک جہتی کشمیر بڑے جوش وخروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ کشمیریوں کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ دکھوں اور تکالیف میں مبتلا ہیں مگر ہم آپ کے لیے کچھ نہیں کرسکتے مسئلہ کشمیر ستر برس کا ہو چکا ہے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی آزادی کشمیر کے بنا ادھوری اور نامکمل ہے ۔کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان ان ستر برسوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کوئی پالیسی ہی واضح نہیں کر سکا کہ وہ حصول کشمیر کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے ؟خدانخواستہ ہم جنگ کے خواہشمد نہیں مگر کیا پاکستان کشمیر کے حصول اور آزادی کے لیے نیوکلیئر جنگ تک جاسکتا ہے؟کشمیری عوام مسلسل ستر برسوں سے پاکستان کی طرف آس لگائے بیٹھی ہے لاکھوں کی تعداد میں کشمیری مائوں ،بہنوں،بیٹیوں کی عزتیں لوٹیں گئیں ،بوڑھوں ،بچوں اور جوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ان کے گھر باہر جلا دئیے گئے مگر آزادی کا جذبہ موت کے خوف سے سرد نہیں ہوتا۔ حریت کی فکر نہ قید کے ڈر سے ختم ہوتی ہے اور نہ ہی تشدد کا صدمہ آزادی کی تڑپ کو ختم کرتا ہے۔
مسئلہ کشمیر کوئی ایسا گھمبیر بھی نہیں جوکہ حل نہ ہو سکے یہ کہنا ہرگز غلط نہ ہوگا کہ ہمارے حکمران اس کا حل ہی نہیں چاہتے ورنہ یہ کشمیر تو فقط ایک راہ گزر ثابت ہو ہندئوستان میں داخل ہونے کے لیے اس کے بعد ہندئو مذہب صرف کتابوں کی حد تک رہ جائے ،ہندئوستان دنیا کے نقشے پر سے غائب ہو۔قسطنطنیہ ایک ناقابل تسخیر شہر تھا اس کے تین اطراف میں سمندر تھا اور ایک جانب خشکی تھی شہر کے گرد چودہ میل کے قطاع دائرے میں ایک مضبوط فصیل تھی جس پر ایک سو ستر فٹ کے فاصلے پر مضبوط برج بنے ہوئے تھے فصیل کے اندر پھر ایک فصیل تھی ان دونون فصیلوں کے بیچوں بیچ ایک ناقابل عبور خندق تھی جس کی چوڑائی 60اور گہرائی 100فٹ تھی اور یہ شہر فتح کرنا قریب قریب ناممکن تھا حضرت امیر معاویہ خلیفہ بنے تو آپ نے اپنے بیٹے یزید کی سرکردگی میں قسطنطنیہ پر پہلا باقاعدہ حملہ کرنے کے لیے فوج بھیجی اس حملے میں بہت سے جلیل القدر صحابہ جن میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شامل تھے ،شریک ہوئے دوران محاصرہ حضرت ابو ایوب انصاری بیمار ہو کر شہید ہو گئے اس کے بعد قسطنطنیہ کی فصیل کے نیچے مدفون ہوئے اس کے بعد حضرت عمر بن عبد عزیز،ہشام بن عبدالملک ،مہدی عباسی اور خلیفہ ہارون الرشید جیسے پرجلال خلفاء نے قسطنطنیہ پر زبردست حملے کیے مگر اس شہر کو فتح نہ کر سکے۔
قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لئے مسلمان سلاطین آخر اتنے بے چین کیوں ؟ جب کہ آدھی سے زائد دنیا پر مسلمان حاکم تھے اس بے چینی کی اصل وجہ شہنشاہ امن، رحمت کائنات ،قائد انسانیت حضرت محمدۖ کی یہ بشارت تھی (بحوالہ مسند امام احمد جلد4صفحہ 335)”تم ضرور قسطنطنیہ فتح کرلو گے پس بہتر امیر ،اس کا امیر ہوگااور بہترین لشکر وہ لشکر ہوگا۔”مسلمان سلاطین اسلام کے سچے داعی اور اللہ کے سپاہی ہوتے ہیں جن کی زندگیوں کا مقصد سر بلندی اسلام ہوا کرتا ہے ۔وہ مجاہد ہوتے ہیں عیش وعشرت کے دل دادہ نہیں وہ اپنے اقتدار کے کھوجانے کے خوف بچوں’بوڑھوں ‘عورتوں اور نہتے جوانوں پرسرعام گولیاں نہیں برساتے قتل وغارت گری نہیں کرتے ،بلکہ یہ فراعین مصر کا شیوہ رہا ہے کہ ننھے بچوں،عورتوں،بوڑھوں ،جوانوں کو تخت و تاج کے چھن جانے کے ڈر سے قتل کروادیا جاتا تھا سلطان محمد فاتح کی یہ اولین کوشش تھی کہ قسطنطنیہ کو فتح کرے اللہ تعالی کی نصرت اور رضا یہی تھی کہ یہ سعادت سلطان محمد فاتح کے حصے میں آئے خشکی پر بحری بیڑہ چلا آیا صوفیہ پر اسلام کا پرچم لہرایا گیا قسطنطنیہ فتح ہو گیا۔طارق بن زیاد نے کشتیاں جلا دیں شاہ اندلس خود کشی کرنے پر مجبور ہو گیا اندلس پر آٹھ سوسال تک اسلام کا پرچم لہراتا رہا۔
مقبوضہ کشمیر سے حریت رہنما خاتون آسیہ اندرابی کا پانچ فروری یہ بیان جوکہ ایک قومی اخبار میں شائع ہوا کہ” پاکستان سے ابن قاسم کی آمد تک بھارت سے لڑیں گے ”نے اندر تک جھنجھوڑ ڈالا انتہائی افسوس اور حیرت سے کہنا پڑتا ہے کہ جس انگریز کی غلامی کے لیے ہمارے آبائو اجداد نے آزادی کی قیمت چکائی ،ہم آج بھی ان کے غلام ہیں بلکہ یہ غلامی بڑھی ہے کم نہیں ہوئی ،وہ ہندئو اور سکھ جن کے ظلم وستم سے تنگ آکر ہمیں اس دھرتی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دینے پڑے ،اس دھرتی کا چپہ چپہ ہندوئوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوا آج انہیں ظالموں کو ہمارے حکمران دوست کہتے ہیں ،اس پاک سر زمین پر ان کا شاندار والہانہ استقبال کرتے ہیں مفادات مشترکہ ہیں یہ پاکستان کی خوش فہمی ہے کہ اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کرے گی اقوام متحدہ کی ہمدردیاں ہمیشہ سے بھارت کے ساتھ رہیں ہیں اور رہیں گے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ کشمیر کمیٹی بنائی گئی اور ایک بڑے اہم مولانا کو اس کے چیئرمین کی ذمہ داری سونپی گئی پانچ سالوں کے اندر اس چیئرمین نے ماسوائے پاکستان میں جمہوریت کی بقا ء بقول ان کے اور راگ الاپنے کے سواء کچھ نہیں کیا ۔آج پاکستان کے اندر صرف ایک جماعت ،جماعت الدعوة اور ان کے سربراہ حافظ محمد سعید ہیں جو کشمیر کی ،اور کشمیریوں کی آزادی کی بات کرتے ہیں جو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے غلام ابن غلام حکمران اپنے ذاتی مفادات ،ترجیحات کی بناء ،بھارت اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے آئے دن اس مجاہد کو نظر بند کر دیتے ہیں تو کبھی ان کی تنظیموں پرپابندی لگا دیتے ہیں اور جواز یہ پیش کیا تھا کہ عالمی اور عوامی مفادات کے تحت ایسا کیا جاتا ہے اور اس پر ہمارے غدار بکائو میڈیا والے بھی پوری مہم چلاتے ہیں ہمارے اکثر وزاء بھی اس محسن کو غدار ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں مسلمانوں کے اندر وہ جذبہ ایمانی اور اتحاد ختم ہوچکا ہے ”بیت المقدس”کو اسرائیل کا دارلحکومت کے اقدام پر چار دن مسلمانوں نے خوب واویلا مچایا اس کے بعد خاموشی اب وہ بھی متنازعہ مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔
کشمیر کی آزادی اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک ہمارے حکمران اس پر سنجیدہ نہیں ہوتے اور اپنے مفادات ختم نہیں کرتے اور ایسا شاید اس لیے ممکن نہیں کہ ہمیں اللہ رب العزت کی ذات اور نبی رحمتۖفرامین پر ایمان نہیں رہا ورنہ آقاکریم ۖ کی واضح حدیث مبارکہ ہے کہ ”میری امت کے دوگرو ہوں کو اللہ نے آگ سے بچالیا ایک وہ گرہ جو ہند میں جہاد کرے گا دوسراوہ جو عیسیٰ کے ساتھ ہوگابات صرف فضائے بدر پیدا کرنے کی ہے فرشتے آج بھی اتر سکتے ہیں کیونکہ فتح ،شکست کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ جس رات چیچنیا کے شہر گروزنی کا روسی فوج نے محاصرہ کیا ایک 90سالہ (ریٹائرڈٹیچر)سلیمان گرانوف ساری رات شہر کی گلیوں میں گھومتا رہا صدائیں بلند کرتا رہا ”لوگو خبردار روسی فوج کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنا فتح شکست کے فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں ”اس پکا ر میں اتنا درد تھا کہ کسی بھی شخص نے ہتھیا نہیں ڈالے اور مقابلے میں روسیوں پر فتح پائی۔۔۔۔۔بر حال کشمیر اور ضمیر سے معذرت۔۔۔۔۔