اس بار ایک بار پھر 5 اگست کا دن کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی مناتے ہوئے احتجاجات ، سیمنارز کشمیر کے قومی ترانے بجاتے ہوئے گزر گیا افسوس ہماری حکومتی کاوشیں مقبوضہ وادی سے ایک دن کا کر فیو بھی نہ اٹھا سکی اور ادھر غاصب مودی کشمیریوں کی الگ مسلم شناخت و تشخص کے خاتمے کے درپے ہے۔آ رٹیکل 370 کی معطلی سے مظلوم وادی میں عام بھارتیوں کو بھی کشمیر میں زمین خریدنے ، نوکری کرنے اور رہنے کی اجازات مل گئی ہے جس سے کچھ عرصے میں مقبوضہ وادی میں آبادی کا تناسب تبدیل ہو جائے گا اور مسلمان اکثریت اقلیت اور ہندو اقلیت اکثریت میں بدل جائے گی ۔اس کے بعد اگر رائے شماری ہوئی تو فیصلہ بھارت کے حق میں آئیگا۔5اگست2019ء تاریخ کاوہ سیاہ دن جب غاصب مودی نے مقبوضہ کشمیر پر شب خون مارااوراس کے خصوصی درجے کو ختم کرتے ہوئے فوجی بربریت و درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہڑپ کر لیا۔
چنانچہ 5 اگست کو یوم سیاہ ، یوم استحصال اور یوم مزاحمت قرار دیتے ہوئے اس روز گزشتہ دو برسوں سے پوری دنیا میں کشمیری عالمی مردہ ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دوسری جانب داسو واقعے کی تحقیقات کے دوران چینی تفتیشی ٹیم کو تحریک طالبان کی مدد سے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کی جانب سے چینی انجینئروں پر حملے کے شواہد ملنے پر پاکستان و چین نے طالبان سے ٹی ٹی پی اور ترکستان اسلامک موومنٹ ( ETIM)سے رابطے ختم کرنے پر زور دیا ہے ۔ ا یسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ مشرقی ترکستان کے نام سے ایک آزاد ریاست کے قیام کی خواہاں ہے اور بیجنگ کے مطابق سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کی علیحدگی پسندوں پر مشتمل ہے ۔ اگر کشمیر یوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی تو ڈر ہے کہ کہیں وہاں پر بھی ETIMکی طرح کشمیری نیشنلزم ابھر کر سامنے نہ آجائیں۔ ادھروزیر اعظم عمران خان کا دو ریفرنڈم کروانے کا عندیہ کہیں تحریک آزادی کشمیرکوکمزور نہ کر دے کیونکہ متنازعہ بیان سے پاکستان کے اصولی موقف کی رو گردانی کے ساتھ ساتھ کشمیر پر اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کی بھی نفی ہوتی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ سلامتی کونسل کی درجنوں قراردادوں کے ذریعے ہی کشمیریوں کو دئے گئے استصواب کا حق دینے کے لئے رائے شماری کے انتظامات بھی بھارت ہی نے کرنے ہیںجو نہ صرف اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے منحرف ہو چکا ہے بلکہ اس نے اسے اٹوٹ انگ قرار دیکر ہڑپ بھی کر لیا ۔واضح رہے کہ کشمیریوں نے قیام پاکستان کے وقت ہی اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کر لیا تھا۔ جموں و کشمیر کی 77 فیصد مسلم آبادی نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ دیدیا تھا ۔کشمیریوں کی بھارتی تسلط سے آزادی کی جنگ دراصل پاکستان سے الحاق کی جدو جہد ہے اس لئے کشمیر میںریفرنڈم کے ذریعے کشمیریوں کا پاکستان یا بھارت سے الحاق کا آپشن دینا ہماری سالمیت و بقا کو خطرے میں ڈالنا ہے ۔
وزیراعظم کی یہ تجویز اول تو ویسے ہی ناقابل عمل ہے کہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی20 جنوری 1948ء کی قرار داد نمبر 30 دونوں ممالک کے مابین ثالثی کیلئے یو این او کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ جس کے بعد 21اپریل1948ء کی قرارداد نمبر47 منظور ہوئی۔اس قرارداد کی شق نمبر 3 میں بھارت سے کیا گیا تھا کہ وہ رائے شماری کیلئے اقوام متحدہ کے استصواب ایڈمنسٹریٹر کا تقرر عمل میں لائے گااور استصواب کے ذریعے ہی کشمیری فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے بھارت ، پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا ہے ۔اس قرار داد میں آزاد و خود مختار ریاست کی کو ئی تیسری آپشن دی ہی نہیں گئی ۔ جبکہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی روح کے مطابق استصواب کا اہتمام مقبوضہ کشمیر میں ہی ہونا ہے جس کے انتظامات پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے کرنے ہیں ۔یہ تو بھارتی بد نیتی ہے کہ وہ خود مسئلہ کشمیر کو یو این او میں لے کر گیا اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے رائے شماری کا وعدہ کیا تھا ۔مگر اس کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی20 جنوری 1948ء اور21اپریل1948ء کی منظور کردہ قراردادوں پر گزشتہ73 سالوں سے بھارت عمل کرنے سے گریزاں ہے اور مسلسل وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہا ہے
لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میںاقوام عالم میںکشمیر کو دو ملکوں کا مسئلہ سمجھ کر مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔دنیا بھر کے ممالک کو کشمیر میں بڑھتی ہوئی محرومیوں پر تشویش تو ہے لیکن اس کے حل کیلئے آ ج تک کوئی مئوثر کردار ادا نہیں کیا جا سکا ۔ ایک طرف عالمی حمایت کی عدم موجودگی سے آج تک ہونے والے” امن مذاکرات” نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عالمی بے حسی نے ہی بھارت کو مسلمانوں پر ظلم ڈھانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی و امریکی آشیر باد سے ہی قابض بھارت نے آزادی کی جدو جہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیدیاجبکہ اقوام متحدہ کے آرٹیکل 2294 کے مطابق آزادی کے متوالے دہشت گرد ہرگز نہیں ہوتے ۔راجہ فاروق حیدر سابق وزیر اعظم آ زاد کشمیر اشاروں ، کنایوں میں اظہار کر چکے ہیں کہ کشمیر کیخلاف عالمی سازش ہو رہی ہے اور مودی کا رٹیکل مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنا عالمی منصوبہ بندی کاحصہ تھا اب استعماری قوتوں کی نظریں آزاد کشمیر پر ہیں ۔یہ ہمارے حکمرانوں کی نا اہلی ہے یا اسے لاعلمی کہیے وہ کیسے اس عالمی سازش سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے ۔
راجہ فاروق حیدر سابق وزیر اعظم آ زاد کشمیر نے12دسمبر2019ء کو مظفر آباد میں سپریم کورٹ بارکی تقریب حلف برداری کے دوران کھل کر کہا۔
راجہ فاروق حیدر کے مطابق”مجھے بتایا جا رہا ہے کہ تم آزاد کشمیر کے آخری وزیر اعظم ہو ساری جماعتیں تقسیم کشمیر پر راضی ہو گئی ہیں ۔ مگر تنہا کچھ نہیں کر سکوں گا ۔لگتا ہے کہ میں آزاد کشمیر کا آخری وزیر اعظم ہو ں” ۔سوال یہ ہے کہ آکر یہ پیغام کہاں سے آیا اور کس نے دیا؟کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ہمارے حکمرانوں کی خاموشی کیوںہے ؟قبل ازیں گلگت بلتستان کو صوبہ بنا کر اقوام متحدہ سمیت عالمی پلیٹ فارم پر کشمیر کا کیس کمزور کیا گیا اور اب آزاد کشمیر کے حوالے سے کچھ ایسا ہی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جو کسی طور بھی کشمیریوں کے حق میں نہیں ہو گی جس سے آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچے گا ۔ جبکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 میں کشمیریوں کی خواہشات کے احترام کی بات کی گئی ہے ، لیکن گلگت بلتستان آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کے اقدام کو یکطرفہ طورپر کشمیریوں پر مسلط کرنے والی بات ہے ایسا کرنا نہ صرف پاکستان کے آئین بلکہ سلامتی کونسل کی قرادادوں کے بھی منافی ہے ۔کیا عمران خان نے اسی لئے الیکشن میںمودی کی کامیابی کی خواہش کی تھی؟ اور کیا اسی لئے ٹرمپ کی کشمیرثالثی کے بیان پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے تھے۔
کشمیر کی بندر بانٹ میں ہم بھی برابر کے قصور وار ہے ۔ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کو سوچنا ہو گا کہ کشمیر کی آزادی کا ایک ہی راستہ ہے جہاد اگر ہم کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گے تو سامراجی چالوں کا شکار ہوجائے گے کیونکہ کبھی بھی دو راہوں پر چل کر منزل نہیں ملے گی ۔واضح رہے کہ out of box solution فیصلہ کرنے سے ان کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی جو کشمیری نوجوان ، مائیں ، بہنیں ، بچے اور بزرگ غاصب بھارتی فوج کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے کے بعد سبز ہلالی پرچم کے کفن میں دفن ہونا فخر سمجھتے ہیں ۔ہمارے حکمران جان لیں کہ آدھا گھنٹے کے احتجاج ، ہر جمعہ کشمیر کا ترانہ بجا نے یا 5 اگست کو مظاہروں ، واک اور سیمینارز کے انعقاد سے کشمیر نہیں ملے گا ۔دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کی عوام بھارت کے خلاف اب نہیں تو کبھی نہیں کی پوزیشن میں آچکی ہے یہ تمام حقائق مودی کے لئے ایک ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ نریند مودی جسے اقتدار میں لانے کیلئے 100 ارب سے زائد سرمایہ لگایا گیا وہ تو محض ایک کٹھ پتلی ہے امریکہ اور اسرائیل بھارت کو تھپکیاں دے کر خود بیوقوف بناتے رہے ہیں انہوں نے اپنا عسکری گباڑ کانہ بھارت کو بیچ کر اسے یہ تاثر دیا کہ خطے میں پاکستان اور چین کے خلاف اس کی پشت پر وہ موجود ہیں لیکن اب خود امریکہ موجودہ صورتحال میں پاک بھارت جنگ کے تصور سے گھبرا رہا ہے اوراس نے افغانستان سے نکلنے میں ہی عافیت سمجھی۔