کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران کی آنکھوں میں برسوں سے کھٹک رہی تھی۔ بی جے پی ہندو انتہا پسند آرایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر رکھی گئی تھی اور نہ صرف بھارت بلکہ پورے خطے سے مسلمانوں کا صفایا اور ایک ہندو راشٹر کا قیام ہے ۔مقبوضہ کشمیر جسے قائد اعظم نے ہماری شہہ رگ قرار دیا تھا ۔ہندو بنیئے نے اپنی روایتی مکاری و عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر ناجائز تسلط جما لیا تھا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں نہرو نے کشمیر میں رائے دہی کا وعدہ کیا تھا لیکن مکار ہندو اپنی ہی کئے گئے عہد سے مکر گیا ویسے بھی دھوکہ بازی اور فریب تو ہندو کی سر شست میں شامل ہے ۔بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہی اس کی اصل پہچان ہے۔مسلمانوں کے قاتل اعظم نریندر مودی نے الیکشن سے قبل رام مندر ، یکساں سول کوڈ اور کشمیر کی شناخت دفعات 370 اور 35 اے کے خاتمے کا اعلان کیا تھا ۔ مودی سرکار نے آتے ہی اس پر عملدرآمد شروع کر دیا ۔ کشمیر کو ٹکڑوں میں تقسیم ہی نہیں کیا اس کا بطور الگ ریاست کا درجہ ہی ختم کر دیا ۔سنا ہے کہ کٹھ پتلی کشمیری حکمرا ن مر حوم شیخ محمد عبداللہ دفعہ 370 کو کشمیری خواتین کے جسم پر موجود لباس سے تشبیہ دیتے تھے۔
نیشل کانفرنس کا کشمیری میں مقبول انتخابی نعرہ ہوتا تھاجس کا مفہوم تھا کہ خواتین کی عزت و آبرو 370میں ہے ۔ کشمیر کی عزت کو تار تار کرنے میںنیشنل کانفرنس بھی شریک جرم ہے ۔آج محبوبہ مفتی سمیت عمر عبداللہ سمیت بھارت نواز لیڈر بھارتی قید میں ہیں ۔جنہوں نے کشمیر کو ہندوستان کے ہاتھوں میں سونپنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مودی حکومت ، ہندو فرقہ پرست لیڈر و وزیر شادیانے بجا رہے ہیں اور ہماری عزت مآب کشمیری خواتین کے حوالے سے شرمناک بیانات سامنے آرہے ہیں جس سے ان کی مسلمان عورت کے بارے میں گندی و غلیظ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ ہریانہ صوبہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے نوید سنائی کہ ہندوستان کے کنوارے نوجوان اب کشمیر کی گوری لڑکیوں کے ساتھ شادیاں کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے طنز آمیز، جنسی اور نسلی تعصب سے بھرے ہوئے جملے ہندوستان کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہے ہیں۔ کئی افراد تو فون پر گلمرگ اور سونہ مرگ کی وادیوں میں زمینوں کے بھاؤ پوچھ رہے ہیں۔ جبکہ دفعہ 370 کے منسوخ ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی بہت سے بھارتیوںکی رال ٹپک رہی ہے کہ اب وہ کشمیری لڑکیوں کے ساتھ شادی کر سکتے ہیں اور ڈل کے کنارے زمین خرید سکتے ہیں۔
بی جے پی اور سنگھ پریوار کے لیڈر وں کی توجیسے خوشی سے باچھیں کھل گئی ہیں۔ یو پی سے بی جے پی لیڈر وکرام سنگھ سائنی نے پارٹی کارکنوں کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ ان کے وزیراعظم مودی نے کشمیر کے راستے کھول دیے، بھارتی جنتا اور خاص طور پر مسلمان لڑکوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اب وہ گورے رنگ کی کشمیری لڑکیوں سے شادی رچا سکیں گے۔ جیسے کشمیر کی بیٹیوں کومفت کا مال سمجھ لیا ہے کہ ان کا جی چاہے گا تو اٹھا کر لے آئیں گے۔ متعدد رپورٹوں کے مطابق کشمیرمیں تعینات قابض بھارتی فورسز اہلکار گھروںپر چھاپوں کے دوران کشمیری خواتین اور لڑکیوںکی بڑے پیمانے پربے حرمتیاں کر رہے ہیں اور نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ میں ہزاروں کشمیری لڑکوں کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ ایک اور رپورٹ میں کہاگیا کہ صرف 15 اگست کو جو مقبوضہ علاقے میں مسلسل رائج کرفیو اور دیگر سخت پابندیوںکا 11واں روز تھاکشمیر میںبھارتی فورسز نے سیکڑوں لڑکوں کو اغوا اور خواتین کے بے حرمتیاں کیں۔ سابق فوجیوں اور ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور ان کے اہل خانہ کو کشمیر میں بسانے کی مہم تو پہلے سے ہی جاری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے اپنے قدم کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی ایک دلیل دی، کہ بیرون ریاست بیورکریٹ کشمیر جانے سے کتراتے ہیں، کیونکہ و ہ اور ان کے اہل خانہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے ہیں۔
آسٹریلوی صحافی نے بھارتی مکروہ چہرے کو بے نقاب کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ وادی میں تعینات بھارتی فوج نے قتل ، تشدد، گمشدگیوں اور عصمت دری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔آرٹیکل 370 اور 35اے کے خاتمے کے بعد وادی میں کرفیو اور لاک ڈاؤن ہے، بھارتی حکومت نے ہر 10کشمیریوں پر ایک فوجی تعینات کردیاہے۔صحافی کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کشمیرمیں قتل،تشدد، گمشدگیوں،عصمت دری میں ملوث ہے اور اب تک وہاں کے 80 ہزار سے زائد بچے یتیم ہوچکے ہیں، عراق،افغانستان،غزہ سیزیادہ مقبوضہ کشمیر فوجی تعینات ہیں۔آسٹریلین صحافی نے بھارتی مظالم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایا کہ وادی میں ہونے والی قتل و غارت گری، تشدد اور جبری گمشدگیوں کے ساتھ اب بھارتی فوجی خواتین کی عصمت دری بھی کررہے ہیں۔خواتین کی بے حرمتی کو بھارتی درندہ صفت فوج جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اور اب تک کشمیری عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔اس کی مثال پہلی اور دوسر جنگ عظیم میں بھی نہیں ملتی۔افسوس مظلوم خواتین کو آج تک انصاف نہ مل سکا اور دوسری جانب حقوق انسانی کی پامالی ،عورتوں سے اجتماعی زیادتی کو بھارتی فوج نے معمول بنا رکھا ہے۔23فروری1993ء کی وہ بھیانک رات اس مہذب دنیا کے منہ پر طمانچہ ہے جب بھارتی درندوں نے کشمیر کے قصبوں کنن پوشپورہ میں حیوانیت کا ننگا ناچ کیا اور 11سال کی عمر کی بچی سے لیکر 80 سال کی عمر رسیدہ خاتون کو بھی بھارت سے آزادی مانگنے کے جرم میں بے آبرو کر دیا گیا۔
اس رات نہ زمیں کانپی اور نہ ہی آسمان پٹھا مگر کشمیریوں کو ذخم دیا جو ناسو ر بن چکا ہے اور مسلسل رس رہا ہے۔ایک اور دلدوز واقعہ جو2004 ء ہندوارہ میں پیش آیا، جہاں راشٹریہ رایفلز کے ایک میجر نے ایک خاتون اور اس کی نابالغ بچی کا انتہائی بے رحمی سے ریپ کیا۔ اِسی طرح جنوبی کشمیر کے مٹن علاقے میں انڈین آرمی ایک صوبیدار اور اس کا باڑی گارڈ ریپ کے ایک اور بھیانک واقعہ میں ملوث رہے ہیں۔ اِس واقعہ کے خلاف سرکاری سطح پر ابھی تک بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔لِسر چوگام کی ایک دو شیزہ نئی نویلی دلہن بانو کے ساتھ ریپ کا واقعہ اعصاب کو مفلوج کر دیتا ہے۔ 18 مئی 1990 ء شادی کے روز فوج کے ایک دستے نے اس نو بیا ہتا کا ماس ریپ کرتے ہوئے اسے بے آبرو کر دیا گیا ۔جنوری 1992ء میں ریشی پورہ انت ناگ میں 5 راشڑیا ریفلز نے ایک گھر میں جاکر پہلے دولڑکیوں کے باپ کو اغوا کیا اور پھر ایک میجر نے بڑی بیٹی اور ایک سپاہی نے چوتھی بیٹی کے ساتھ 90 منٹوں تک درندگی کا کھیل کھیلا اس کی عصمت دری کی اور بعد میں ان کے گھر کو آگ لگا دی۔ حیوانیت کا شکار دونوں بہنوں نے رات اس وقت ندی کے کنارے ایک غسل خانے میں گزاری تھی۔ شوپیاں میں 9عورتوں کے ساتھ 22 Grenadiers آرمی نے ریپ کیا تھا جس میں ایک گیارہ سال کی معصوم لڑکی کے ساتھ ساٹھ سال کی خاتون کی بھی بے حرمتی کی گئی تھی۔
اس کیس کو بعد میں untrace کہہ کر ختم کر دیا گیاتھا۔فوجی اہلکاروں نے 2009ء مئی میں دو کشمیری خواتین نیلوفر اور آسیہ کو اغوا کر کے درندگی کا نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل قریبی جنگل میں پھینک دیا تھا۔کشمیر کے ایک علاقے کٹھوعہ کی 9سالہ ننھی آصفہ بانوکی ایک ہفتے تک مسلسل اجتماعی عصمت دری کی گئی،آصفہ کو اغوا کرقریبی مندر میں میں قید کر کے رکھا گیا تھا۔اس گھناؤنے فعل میں مندر کے پروہت ،اس کا بیٹااور اس کے دوست ملوث پائے گئے۔ننھی کلی کو نشہ آور ادویات پلا ئی جاتی رہی، مزید حالت خراب ہونے اور جرم چھپانے کے لئے معصوم بچی کو پتھروں سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس کی لاش کو بھی جنگل میں پھینک دیا گیا تھا۔کشمیری خواتین آزادی کی قیمت اپنی عزت لوٹا کر کب تک ادا کرتی رہیں گی ؟کیا ان کے لئے کوئی محمد بن قاسم نہیں آئے گا ؟پاکستانی حکومت سے بھی سوال ہے کہ کشمیری عورتوں کی عصمتوں کو بچانے کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے ؟کیا انہیں بھارتی درندوں کی وحشت و درندگی کی بھینٹ چڑھایا جاتا رہے گا اور ہم یونہی کسی غیبی مدد کے انتظار میں رہیں گے ۔ یا انہیں بے یارو مدد گا ر چھوڑ دیں گے ۔ حالات کا تقاضا تو یہی ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر کشمیری خواتین کی اجتماعی زیادتیوں کے خلاف بھی آواز بلند کی جائے۔