تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 27 اکتوبر کو مقبوضہ کشمیر میں یومِ سیاہ منایا گیا۔ وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے یومِ سیاہ کے موقعے پر اپنے بیان میں کہا ”بھارتی جبر کشمیریوں کا جذبۂ آزادی نہیں کچل سکتا”۔گزشتہ سات عشروں سے مقبوضہ کشمیر لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔ کشمیری بچوں ،بوڑھوں ،جوانوں اور عورتوں پر ظلم وبربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیںلیکن اقوامِ عالم خاموش اور زور آوروں کے گھر کی باندی ،دَر کی لونڈی اقوامِ متحدہ کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی حالانکہ اِسی اقوامِ متحدہ نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی قراردادیں تک منظور کر رکھی ہیں۔ جو اقوامِ متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل کروانے سے قاصر ہے اُس سے بھلا اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ جس طرح سے کشمیریوں کی آزادی کی موجودہ تحریک زور پکڑ رہی ہے اِس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کشمیریوں کے خون کا آتش فشاں ایک دِن پھٹ کرپورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
1947ء میں جموں و کشمیر کی کل آبادی کا 84 فیصد مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ یہ جنت نظیر خطّہ چونکہ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے قریب تر ہے اور اِس کے تمام دریاؤں کا رُخ پاکستان کی طرف ہے اسی لیے قائدِاعظم نے کہا تھا کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رَگ ہے”۔ جبکہ اِس کے برعکس بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا چلا آرہا ہے۔ کشمیر کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلم کانفرنس نے 18جولائی 1947ء کو اپنی مجلسِ عاملہ میں ”الحاقِ پاکستان” کی قرارداد منظور کی (کشمیری آج بھی ہر سال 18 جولائی کا دِن بڑے جوش وجذبے سے مناتے ہیں)۔ مسلم کانفرنس نے کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے کشمیر کی آزادی کا مطالبہ کیاتو بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر اُس پر غاصبانہ قبضہ کر لیا اور پھر مہاراجہ اور شیخ عبداللہ سے ملّی بھگت کرکے کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کروادیا۔ غیرجانبدار مبصرین کے مطابق بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کے معاہدے پر زبردستی دستخط کروائے کیونکہ معاہدے پر دستخط سے پہلے بھارت کشمیر میں اپنی فوجیں اتار چکا تھا اور مہاراجہ کے پاس دستخط کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔
فوجیں اتارنے کے بعد بھارت نے آبادی کا تناسب بدلنے کی مذموم کوششیں شروع کر دیںاور نہتے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنی شروع کی۔ لاکھوں شہید ہوئے اور ہزاروں عفت مآب بیٹیوں کے عصمت دری کی گئی۔ چنگیزیت کے علم بردار وحشی درندوں نے وحشت ودرندگی کا ایسا ننگا ناچ رچایا کہ انسانیت بھی مُنہ چھپانے لگی لیکن کشمیریوں کے جذبۂ حریت میں کوئی کمی نہ آئی ۔ 1948ء میں کشمیری مجاہدین اور فاٹا کے پختونوں نے شجاعت کی داستانیں رقم کرتے ہوئے سری نگر کو گھیرے میں لے لیااور قریب تھا کہ وہ سری نگر پر قابض ہو جاتے لیکن ”بھارتی بنیا” امن اور شانتی کی دہائی دیتا اقوامِ متحدہ پہنچ گیاجہاں کشمیریوں کے استصواب رائے کا حق تسلیم کر آیا۔ چونکہ بھارت کی نیت میں تو پہلے دن سے ہی کھوٹ تھااور اُس کا بنیادی مقصد وقت حاصل کرکے آبادیات کا تناسب تبدیل کرنا تھااِس لیے اُس نے مقبوضہ کشمیر میں چھیڑ چھاڑ جاری رکھی جو 1965ء کی جنگ پر منتج ہوئی۔
بھارت ،کشمیریوں کے استصواب رائے کو نہ کل تسلیم کرتا تھا،نہ آج تسلیم کرتا ہے۔ آج بھی اُس کا مقصد آبادیات کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے جس کے لیے وہ کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے ۔ 8 جولائی 2016ء کو برہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کی تڑپ میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اورجنگِ آزادی کی کمان نوجوانوں کے ہاتھ میںآ چکی ہے جو ”ابھی یا کبھی نہیں” پر عمل پیرا ہو کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مذاکرات کے ڈھونگ نے ہی اُن کے سات عشرے ضائع کر دیئے۔ ”تنگ آمد ،بجنگ آمد ” کے مصداق نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور بھی بھارت ہی نے کیا ہے۔
بائیس سالہ برہان مظفر وانی سوشل میڈیا پر ”ٹائیگر وانی” کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔ 2010ء کو برہان وانی کا بڑا بھائی خالد مظفروانی اپنے دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر جا رہا تھا کہ سپیشل پولیس کے اہلکاروں نے اُسے پکڑ لیا اور دورانِ تفتیش اُس پر اتنا تشدد کیا کہ وہ بیہوش ہوگیا۔ اُس وقت برہان مظفر میٹرک کا طالب علم تھا۔ اُسے اپنے بھائی پر تشدد کا اتنا دُکھ پہنچا کہ وہ گھر سے فرار ہو کر حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا۔ 14 اپریل 2015 ء کو خالد مظفر وانی گھر سے نکلا اور پھر اُس کی لاش ہی گھر واپس آئی۔ سکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ خالد مظفر مقابلے میں مارا گیا لیکن اُس کے جسم پر گولی کا کوئی نشان نہیں تھاالبتہ جب اُس کی لاش کو غسل دیا جانے لگا تو اُس کے پورے جسم پر تشدد کے بیشمار نشانات پائے گئے۔بائیس سالہ ہونہار اور پوزیشن ہولڈر برہان وانی کو چنگیزیت کے جا بجا بکھرے ہوئے ایسے ہی نظاروں نے علمِ بغاوت پر مجبور کیا لیکن اُس نے کبھی ہتھیار نہیں اٹھایا۔ وہ سوشل میڈیا پر آزادی کی تحریک جاری رکھے ہوئے تھا۔ وہ اور اُس کے ساتھی اقوامِ عالم کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر بھارتی مظالم کی ویڈیوز بناتے اور پھر اُسے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر اَپ لوڈ کر دیتے۔ پوری زندگی میںبرہان وانی نے ایک گولی بھی نہیں چلائی لیکن پھر بھی وادی کی تاریخ میں اتنی مقبولیت کسی کے حصّے میں نہیں آئی جتنی اُس کوملی۔
8 جولائی 2016ء کو اننت ناگ کے علاقے میں برہان وانی اپنے ساتھیوں سمیت فاروق وانی کے گھر میں موجود تھا کہ سکیورٹی فورسز نے اُسے تین ساتھیوں سمیت شہید کر دیا۔ برہان وانی کی شہادت کی خبر سنتے ہی وادی میں احتجاج کی آگ بھڑک اُٹھی اور لوگ گھروں سے باہر نکل آئے۔ تب سے اب تک سینکڑوں شہید ہو چکے اور اسرائیل سے درآمد شدہ پیلٹ گنوں کا شکار ہو کر ہزاروں اندھے۔ وانی کے جنازے میں دو لاکھ سے زائد کشمیریوں نے شرکت کی اور اُس کی چالیس مرتبہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ وانی کے جنازے میں لوگ یہ کہتے پائے گئے ” بھارت یہ نہ سمجھے کہ اُس نے وانی کو ختم کر دیا۔ اِس ایک وانی نے ہزاروں وانی پیدا کر دیئے ہیں جو ظلم وستم کے خلاف اُس وقت تک جہاد کریں گے ،جب تک سانس کی ڈور سلامت ہے”۔ برہان وانی کے والد مظفر وانی نے ایک مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ”میں نے اپنے دو بیٹے آزادی کی نذر کر دیئے ،اب اکلوتی بیٹی بھی آزادی کے لیے وقف کرنے آیا ہوں”۔ بھارت نواز عمر عبداللہ نے کہا” زندہ برہان وانی سے قبر میں لیٹا برہان وانی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہاں اگر وہ فیس بُک وال استعمال کرتا تھا تو قبر کی ”وال” اِس مقصد کے لیے خود بخود استعمال ہونے لگی ہے”۔
برہان وانی کی شہادت سے اب تک آزادی کی تحریک میں دِن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب تو اِس مسلٔے کے حل کے لیے بھارت سے بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں لیکن نریندر مودی جیسے درندوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب بھارت ایک طرف تو سرحدوں پر محدود جنگ جاری رکھے ہوئے ہے جس کا افواجِ پاکستان مُنہ توڑ جواب دے رہی ہے جبکہ دوسری طرف افغانستان کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی مذموم کوششیں کر رہا ہے۔ مقصد اُس کا صرف یہ کہ مقبوضہ کشمیر میں روزافزوں تحریکِ آزادی سے اقوامِ عالم کی توجہ ہٹا کر یہ ثابت کیا جا سکے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کی سرپرستی کر رہا ہے لیکن آزادی کی اِس نئی لہر کے آگے بند باندھنا اب ممکن نہیں رہا۔