کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ دبئی نے جموں و کشمیر میں انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ یہ اعلان ایک ایسے وقت ہوا ہے جب خطے میں تشدد کی نئی لہر کا دور دورہ ہے۔
بھارتی حکومت نے 18 اکتوبر پیر کی شام کو اعلان کیا کہ اس نے جموں و کشمیر میں سرمایہ کاری کے لیے خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے ساتھ مفاہمت کی ایک یاد داشت پر دستخط کیے ہیں۔ اس اعلان کے مطابق دبئی بھارت کے زیر انتظام خطے جموں و کشمیر میں رئیل اسٹیٹ، صنعتی پارکس اور جدید ہسپتالوں سمیت کئی دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کرے گا۔
دبئی کی طرف سے یاد داشت کی مفاہمت پر دسخط بھارتی زیر انتظام کشمیر جیسے حساس ترین علاقے میں کسی بھی بیرونی ملک کی جانب سرمایہ کاری کا یہ پہلا معاہدہ ہے۔ دبئی کشمیر میں کتنی رقم کی سرمایہ کاری کرے گا اس کا اس معاہدے میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
لیکن بھارت نے تقریبا دو برس قبل جس انداز سے کشمیر کو آئین کے تحت حاصل اس کی نیم خود مختار حیثیت ختم کو کر دیا تھا اور مسلم اکثریتی علاقے کا ریاستی درجہ ختم کرتے ہوئے اسے دو حصوں میں منقسم کر دیا تھا، اس کے بعد اس طرح کی بیرونی سرمایہ کاری کا معاہدہ کافی اہمیت کا حامل ہے۔
نئی سرمایہ کاری کے بارے میں مودی حکومت نے کیا کہا؟ بھارتی کشمیر کی انتظامیہ اب مودی کی مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت دبئی کشمیر میں صنعتی پارکوں، آئی ٹی ٹاورز، ملٹی اسٹوری ٹاورز، لوجیسٹک سینٹرز، ایک میڈیکل کالج اور ایک خصوصی ہسپتال سمیت دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر انجام دے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ دبئی کے مختلف اداروں نے کشمیر میں سرمایہ کاری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ مودی کی کابینہ میں تجارتی امور کے وزیر پیوش گوئل کا کہنا تھا، ’’دنیا نے اس رفتار کو پہچاننا شروع کر دیا ہے، جس رفتار سے جموں و کشمیر ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’یہ مفاہمت نامہ پوری دنیا کو ایک مضبوط سگنل دیتا ہے کہ جس طرح بھارت ایک عالمی طاقت میں تبدیل ہو رہا ہے، اس میں جموں و کشمیر کا بھی نمایاں کردار ہے۔‘‘ کہا جا رہا ہے کہ اس ماہ کے اوائل میں جب اس وزیر نے دبئی کا دورہ کیا تھا، تبھی اس سرمایہ کاری کے معاہدے کے اعلان کا منصوبہ تیار کیا گيا تھا اور پیر کے روز سرینگر میں اس کا اعلان کیا گيا۔
جموں و کشمیر میں مرکزی حکومت کے نمائندہ لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے بھی اس معاہدے کی تعریف کرتے ہوئے کہا، ’’دبئی حکومت اور جموں کشمیر کی انتظامیہ نے ایک معاہدہ کیا ہے، جس سے مرکز کے زیر انتظام علاقے کی صنعت پائیدار ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ آج مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے علاقوں کے ترقیاتی سفر کے لیے ایک اہم دن ہے۔‘‘
مودی حکومت کیا تاثر دینا چاہتی ہے؟ مودی حکومت کو اس بات کی توقع ہے کہ دبئی کی یہ سرمایہ کاری ایک سنگ میل ہو سکتی ہے اور اس کے بعد دنیا کے دیگر ممالک بھی کشمیر کا رخ کریں گے، جن کی سرمایہ کاری سے کشمیر میں ترقی کا کام آسان ہو جائے گا۔
بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کشمیر میں دبئی کی سرمایہ کاری سے بھارت اس متنازعہ خطے کے حوالے سے بعض دیگر مسلم ممالک کی حمایت بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے کیونکہ متحدہ عرب امارت کا دیگر اسلامی ممالک میں بھی اچھا خاصا اثر و رسوخ ہے۔
لیکن کشمیر میں یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے، جہاں جمہوری نظام کی کمزروی کے ساتھ انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد ایک عام بات ہے۔ بھارتی حکومت کے سخت اقدامات کے بعد سے کشمیریوں میں بھارت کے تئیں بد اعتمادی میں کافی اضافہ ہوا ہے اور کشمیری عوام قریب آنے کے بجائے بھارت سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں۔
مودی حکومت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے ہی اس کوشش میں رہی ہے کہ وہاں بھارتی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں۔ اس کے لیے اس نے زمین مہیا کرنے کے بھی وعدے کیے تاہم تشدد اور کشیدگی کے سبب ابھی تک کسی بھارتی کمپنی نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا یا ہے۔
گزشتہ ہفتے سے اب تک کشمیر میں دو درجن سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پونچھ سیکٹر میں عسکریت پسندوں کے ساتھ ہونے والے مسلح تصادم میں نو فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارتی فورسز نے وادی کشمیر میں متعدد عسکریت پسندوں کو بھی ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اس دوران ہدف بنا کر گیارہ عام شہریوں کو بھی قتل کیا جا چکا ہے۔
قتل کی ان واردات میں کشمیری پنڈتوں سمیت دیگر غیر مقامی لوگ شامل ہیں اور اس وقت خوف کا عالم یہ ہے کہ غیر مقامی افراد کا وادی کشمیر چھوڑ کر اپنے آبائی علاقوں کی جانب ہجرت کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بہت سے سرکاری ملازم کشمیری پنڈت بھی وادی کشمیر سے نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔
گزشتہ روز ہی سکیورٹی فورسز نے ایسے بہت سے لوگوں کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کا انتظام کیا اور انہیں وہاں پر لے جا کر رکھا جا رہا ہے۔ کشمیر میں ہر جانب بھارتی فوج کا پہرہ ہے اور، شاہراہوں، گلی کوچوں میں فوجی تعینات ہیں، تاہم اس کے باوجود تشدد کا بازار گرم ہے اور خوف کا ماحول ہے۔ ایسی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری مودی حکومت کے لیے کتنی سود مند ثابت ہو گی، یہ وقت بتائے گا۔