کشمیری نوجوانوں اور منشیات

Kashmir

Kashmir

مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی میں کردار ادا کرنے والے نوجوانوں کو منشیات کی لت میں ڈالنے کی بھارتی کوششوں پر حریت رہنما سید علی گیلانی کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان آج بھی عظیم ملّی اور قومی کاز کے لئے اپنی اٹھتی جوانیوں کو قربان کررہے ہیں اور وہ ہم پر ذمہ داری ڈالتے ہیں کہ ان کے گرم گرم خون کی لاج رکھی جائے اور ان حرکتوں سے کلی طور اجتناب کیا جائے جو آزادی کی منزل کو طول دینے کی باعث بن رہی ہیں، بھارت کا فوجی قبضہ ہمارے لئے خطرناک حد تک نقصان دہ ثابت ہورہا ہے، بھارت نہ صرف جموں کشمیر کے قدرتی وسائل کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔

بلکہ وہ تہذیبی جارحیت کے ذریعے سے ہماری شناخت کو بھی مٹاکر رکھ دینا چاہتا ہے، جموں کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی کو شمالی بھارت کی کئی ریاستوں کی طرف برآمد کیا جاتا ہے، جبکہ وادی کشمیر خود اندھیرے میں ڈوبی ہوئی ہے اور دوسری طرف ہماری زرعی اور جنگلاتی اراضی پر بے تحاشا طریقے سے قبضہ کیا جارہا ہے، جموں کشمیر میں بے راہ روی، شراب اور دیگر منشیات کو بھارتی حکومت کی سرپرستی میں عام کیا جارہا ہے اور بھارت ہماری نئی نسل کو تحریک آزادی سے بیگانہ بنانے کے لیے ان کے اخلاق کو بگاڑنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے، بھارتی فوجی کیمپ شراب کی ترسیل کا ایک ہم ذریعہ بنائے گئے ہیں۔

ریاستی حکمران اس پورے دھندے سے واقف ہونے کے باوجود بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں ذہنی اور نفسیاتی مریضوں کی تعداد بڑھ کر ایک لاکھ20 ہزار ہو گئی ہے جس کے سبب خود کشی کے رجحانات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں 1987میں منشیات اور نفسیاتی امراض سے متاثر افراد کی تعداد 17 ہزار کے قریب تھی ،جو 2008 میں ایک لاکھ تک پہنچ گئی جب کہ 2012 میں یہ تعداد ایک لاکھ 20 ہزارسے تجاوز کر گئی۔ ان متاثرہ افراد میں 15 سے 35 سال تک کی عمر والی 60فیصد خواتین اور 40 فیصد نوجوان پائے گئے۔ وادی کشمیر کے حوالہ سے یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے۔

چند برس قبل تک کشمیری معاشرہ منشیات کی لت سے کم و بیش ناآشنا تھا بلکہ یہاں تمبا کو کو چھوڑ کر دیگر انواع کی عمومی نشہ بازی کے بارے میں سوچنا اور بات کرنا بھی گناہ عظیم تصور کیاجاتا تھا تاہم اب وہ صورتحال نہیں رہی ہے۔چینیوں کو تو اس لت سے نجات مل گئی تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر اس دلدل میں پھنستا ہی جارہا ہے اور یہاں ہرگزرنے والے سال کے ساتھ ساتھ نہ صرف منشیات کا کاروبار فروغ پارہا ہے بلکہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔

اس تشویشناک رجحان میں اضافہ کی رفتار کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس ہر سال کروڑوں روپے مالیت کی منشیات ضبط کرنے کی کارروائیاں کرتی ہے۔ جن میں چرس، فکی ،برائون شوگر ، افیم، ہیروئن، کوکین، بھنگ، اور پاپی کے پھول شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پولیس نشہ آور ادویات کی بوتلیں، ٹکیاں ،انجکشن اور کیپسول بھی ضبط کرتی ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق 16 سے 30 برس کے درمیانی عمروں کے لوگ اس خباثت کی طرف زیادہ با سانی سے راغب ہوجاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیرمیں تقریباً 3.8 فیصد آبادی اسکی ذیلی منشیات کی لت میں مبتلا ء ہے

جو انتہائی بڑی تعداد ہے۔ کشمیر کی کل آبادی میں دو فیصد لوگ بھنگ استعمال کرتے ہیںاور 0.7 فیصد لوگ شراب نوشی میں مبتلاء ہیں۔اسی طرح24.5 فیصد لوگ سگریٹ نوشی کے عادی ہیں جبکہ 10.63 فیصد لوگ سگریٹ نوشی کے دوسرے متبادلات استعمال کرتے ہیں۔تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ افیم کی مختلف اشکال کے استعمال میں کئی سو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ 1980 میں 9.5 فیصد آبادی افیم او ر اس سے وابستہ اشیاء کا نشہ کرتی تھی، لیکن 2002 تک منشیات سے نجات حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 73.1 فیصد ہوگئی ہے۔ 1980 کے دوران تک ہیروئن اور دوسری سخت نشہ آو ر چیزیں ممبئی سے آ یا کرتی تھیں، لیکن 1990 کے بعد ریاست ہیروئن اور اس سے وابستہ اشیاء کی اسمگلنگ کا بین الاقوامی ٹرانزٹ پوائنٹ بن چکی ہے۔

Drugs

Drugs

حال ہی میں کشمیر کے دو حصوں کے درمیان تجارت کا معاملہ منشیات کی ضبطی کی وجہ سے کئی دنوں تک رکا رہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب کچھ سرکاری حکام کی ناک کے نیچے کیسے ہوتا ہے؟ بھنگ، پاپی اور ایسی دوسری نشہ آور فصلیں این ڈی پی ایس ایکٹ، 1985 کی دفعہ 18 کے تحت ایک قابل سزا جرم ہے اور اس کے لیے مجرم کو 10 سال قید با مشقت اور ایک لاکھ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔ایسی منشیات کو خریدنا اور فروخت کرنا بھی اس قانون کی دفعہ 15 کے تحت جرم ہے۔

مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کیے گئے اس قانون کو ریاستی حکومتیں اپنی زمینی حقائق کی بنیاد پر نافذ کرتی ہیں۔ اگرچہ اس قانو ن کی دفعہ 10 ریاستی حکومت کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ افیم، پاپی کے پودوں اور دوائوں میں استعمال ہونے والی افیم اور بھنگ کی کھیتی کی بین الریاستی حرکت پر روک لگا سکتے اور اسے ضبط کر سکتے ہیں تاہم عملی طور ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا ہے بلکہ اگر حق گوئی سے کام لیاجائے تو حکومتی سطح پر صرف کاغذے گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں جبکہ عملی سطح پر کچھ کام نہیں ہورہا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری نوجوان نسل اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جارہی ہے

اگر یہی رجحان جاری رہا تو کشمیری سماج کے مستقبل کے بارے میں کچھ وثوق کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔اگر افیون زدہ چینی قوم اس خجالت سے نجات پاسکتی ہے توماضی قریب تک اس لعنت سے نامانوس کشمیری قوم کیوں نشے کے سمندر میں غرق ہوتی جارہی ہے۔یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ارباب حل و عقد اور اہل دانش کو دینا پڑے گاوگرنہ یہی کہاجائے گا کہ ارباب اختیار کشمیریوں کی بربادی کا تماشا دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں جو کسی صدمہ عظیم سے کم نہ ہوگا۔جنوبی ایشیا میں نوجوان نسل بڑے پیمانے پر منشیات کی لعنت کا شکار ہورہی ہے اور اس پر قابو پانے کے لئے علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔ جنوبی ایشیا اور بالخصوص بھارت میں چرس اور ہیروئین جیسی منشیات کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس کے کاروبار میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔

منشیات کے اسمگلر غیرقانونی تجارت کے لئے نت نئے راستے تلاش کررہے ہیں اور پچھلے برسوں میں مالدیپ بھی ایک نئے روٹ کے طورپر ابھرا ہے۔ منشیات ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس پر کنٹرول کرنا پوری دنیا کے لئے چیلنج بنا ہوا ہے۔ منشیات کی تیاری اور سپلائی بڑے ہی منظم انداز میں کی جاتی ہے اور منشیات کے اسمگلر نت نئے طریقے ایجاد کرتے رہتے ہیں۔ بھارت جنوبی ایشیا میں چرس اور گانجہ جیسے منشیات کی غیرقانونی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق 2007میں بھارتی انسداد منشیات حکام نے 284 ہیکٹر پر پھیلے ہوئے گانجہ کے کھیتوں کو تباہ کیا تھاجب کہ گذشتہ تین برسوں میں اوسطا 150 ٹن چرس سالانہ ضبط کی گئی۔

ضبط کی گئی چرس کے 40 تا 50 فیصد کا تعلق نیپال سے تھا جو چرس کی اسمگلنگ کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے۔ انسداد منشیات بورڈ کے رکن جے کے بترا نے حالانکہ تسلیم کیا کہ منشیات کی غیرقانونی تجارت پر قابو پانا انتہائی مشکل ہے ۔دنیا بھر میں26جو ن کو انسداد منشیات کا عالمی دن (ورلڈ اینٹی نارکوٹکس ڈے) منایا جاتاہے۔ نئی نسل میں نشہ آور اشیا کے استعمال کا رجحان درحقیقت دولت کی انتہائی فراوانی یا انتہائی غربت دوستوں کی بری صحبت جنس مخالف کی بے وفائی اپنی زندگی کو بے مقصد سمجھنے مقاصد میں ناکامی اور اس تناظر میں پیدا ہونے والی بے چینی اور مایوسی والدین کی مادیت پرستی انتہائی مصروفیت اور بچوں کے معاملات میں عدم دلچسپی وعدم تعاون معاشرہ کی طرف سے نظر انداز کئے جانے عدم مساوات ناانصاف دہشت گردی و انارکی والدین کے گھریلو تنازعات بھی نشہ کے آغاز کے اسباب ہوسکتے ہیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472