تحریر: محمد عتیق الرحمٰن بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویراں کرگیا ! کچھ لوگ زندہ رہ کربھی اپنا کسی کو احساس نہیں کرواتے اور مرنے پر بھی شاید ہی کوئی آنکھ اشکبار ہوتی ہو لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں کہ جوعہدساز شخصیات کہلاتی ہیں اور جن کی زندگی قوموں کے لئے ایک جنون ،نعرہ اور ایک ولولہ رکھتی ہے اور جن کی موت ایک قومی سانحہ بن جاتی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جن پر پوری قوم فخر کرے ۔ایسی ہی ایک شخصیت سردارعبدالقیوم خان کی ہے۔ یہ وہ شخصیت تھی جس نے نعرہ لگایا تھا ’’کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘ اور 1947ء کے بعد انڈیا پرپہلی گولی چلانے کااعزاز بھی اسی مردمجاہد کے پاس تھا اسی لئے ان کومجاہداول کا خطاب دیا گیا ۔زندگی کی 91بہاریں دیکھنے والی شخصیت مجاہد اول ،سابق وزیراعظم وصدر آزاد کشمیر مسلم کانفرنس کے بانی وسپریم ہیڈجناب سردار عبدالقیوم خان جو 10 جولائی 2015ء کو اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے ہیں۔
ایک عظیم شخصیت ،تحریک آزادی کا سرخیل ،عسکری کمانڈراور ایک ہمہ جہت سیاست دان سردار عبدالقیوم 4اپریل 1924ء کو آزادجموں وکشمیر کے قصبے باغ کے علاقے غازی آباد میں پیداہوئے ۔پنجاب یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد برٹش انڈین آرمی کے انجینئرنگ کور میں 1942ء سے 1946ء تک ملازمت کی ۔سردارعبدالقیوم نے 23اگست 1947ء کو نیلا بٹ دھیرکوٹ آزادکشمیر سے حکمرانوں کے خلاف جہادکشمیر کاآغاز کیا۔آپکی انہی قربانیوں کی وجہ سے آپ کو آج بھی پوری قوم عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔1952ء میں سیزفائرلائن کو عبورکرکے مسلح جہادکی دوبارہ کوشش کی پاداش میں آپ کو ایک سال تک جیل بھیج دیا گیا ۔
آزادکشمیر میں سیاسی جدوجہدمیں آپ دو دفعہ وزیراعظم اور چار دفعہ صدر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ رابطہ عالم اسلامی کے رکن بھی رہے ہیں۔ 91ء بہاریں دیکھنے والے سردار عبدالقیوم کی زندگی کاجائزہ لیاجائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہیں کہ ان کی پوری زندگی جدوجہد آزادی کشمیر کے لئے تھی ،ان کو جہاں بھی موقع ملا آپ نے آواز حق بلند کرتے ہوئے کشمیریوں کی بھرپور نمائندگی کی اور دنیا کو باور کروایاکہ کیسے کیسے مظالم بھارتی فوج کشمیریوں پر کرتی ہے اگر یوں کہا جائے کہ انہوں نے دنیا میں بھارتی بھیانک چہرہ عیاں کیا توکچھ غلط نہ ہوگا۔سردار عبدالقیوم جیسے حریت پسندوں کی قربانیوں کی بدولت ہی آج کشمیر کا مسئلہ پوری دنیا میں اجاگر ہوچکاہے بھارت سمیت پاکستان وکشمیردشمن قوتیں محوحیرت ہیں کہ آخر یہ لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں جو اتنا ظلم وتشدد برداشت کرنے کے باوجود نہ صرف کھڑے ہیں بلکہ پوری دنیا کی حمایت بھی حاصل کرتے جارہے ہیں۔
Sardar Abdul Qayyum Khan
سردارعبدالقیوم خان کو نظریہ خودمختار کشمیر کے خلاف نظریہ الحاق پاکستان کی علامت سمجھا جاتا ہے اور وہ کشمیر میں نظریہ پاکستان کے داعی تھے۔ یہ سچ ہے کہ سردار عبدالقیوم خان آزادی کشمیر کا اک باب تھے جو اللہ نے ہم پر بند کر دیا۔ اللہ ان پررحم کرے اور ان کی غلطیوں کو معاف فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرما کر ان کے مشن کو پورا کرنے کی توفیق دے (آمین) کشمیری آج بھی پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے ہرحد کو پار کرنے کو تیارہیں۔ اتنی کشمیریوں کو پاکستان کی ضرورت نہیں ہے جتنی پاکستانیوں کو کشمیر کی ضرورت ہے ۔اگربابائے قوم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ کہا تھا تو بالکل سچ اور حقیقت پسندانہ بات کہی تھی ۔کیونکہ کشمیر سے نکلنے والے دریا ؤں کے پانی سے پاکستانی زمینیں سیراب ہوتی ہیں ۔اور بھارت مسلسل اس کوشش میں ہے کہ وہ پاکستان کی شہہ رگ پرپاؤں رکھ کر پاکستان کو ختم کردے۔ کشمیری جو ایک آزادی کی تاریخ رقم کررہے ہیں شاید ہی کوئی دن خالی جاتا ہو جب کشمیرمیں پاکستان کے حق میں آواز نہ اٹھتی ہو ،شاید ہی کوئی دن ہوجب کشمیری مجاہد اول کا دیا ہوانعرہ’’ کشمیربنے گا پاکستان ‘‘نہ بلندکرتے ہوں ۔اب توکشمیر کی آزادی اپنے عروج پرپہنچ چکی ہے۔
میں پچھلے دنوں ایک افطارپارٹی میں ایک بزرگ کی باتیں سن رہاتھا وہ فرما رہے تھے کہ کشمیر کی آزادی اب بہت جلد ہونے والی ہے کیونکہ اب کشمیری حریت قیادت کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام بھی اور وہ طبقہ جو بھارت نواز تھا ان میں سے لوگ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ کشمیر پاکستان کے بغیر نہیں رہ سکتا ۔کشمیر کو ایک دن آزاد ہونا ہے ۔کشمیری پاکستانی جھنڈے کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھتے ہیں میری آنکھوں سے ان کشمیریوں کی وہ تصویریں اوجھل نہیں ہوتیں جن میں وہ پاکستانی جھنڈا لے کر بھارتی فوج کے سامنے کھڑے ہیں اور نعرہ لگارہے ہیں کہ ’’تیری جان، میری جان۔ پاکستان،پاکستان‘‘ کشمیرکی آزادی میں وہ واقعات رقم ہوچکے ہیں جن کو اگر سونے کے پانی سے بھی لکھا جائے تو ان واقعات کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔پاکستانیوں کی دل کی دھڑکن کشمیر ہے ۔آج بھی جب کشمیر میں کوئی کشمیری شہید یازخمی ہوتا ہے تو ہماری مساجد میں ان کے غائبانہ نمازجنازہ اور ان کی مغفرت وصحت کی دعائیں کی جاتی ہیں ۔آج بھی پاکستانی کشمیریوں کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جس طرح تحریک پاکستان میں کشمیری کھڑے تھے۔
گوپاکستانی سیاست دان کشمیر کے مسئلے کو سیاست کی نظرکردیں لیکن پاکستانی کشمیرکو اپنی شہہ رگ مانتے ہیں اور اسی لئے بھارت سرکارایسے پاکستانیوں کو دہشت گرداور انتہاپسند کے نام سے پکارتی ہے اور کشمیری رہنماایسے پاکستانیوں کو اپنا رہنماء مانتے ہیں ۔آج میں مجاہداول کے لئے چندالفاظ لکھ رہاہوں تو یہ بھی اسی جہاد کی وجہ سے ہے جوان جیسے کئی لوگ بھارتی فوج کے خلاف کررہے ہیں۔عظیم ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنا آج اپنی آنے والی نسل کے لئے قربان کردیتے ہیں اور دنیاکی چکاچوندروشنی ان کا کچھ نہیں بگاڑپاتی۔ایسے ہی لوگ مرکربھی دلوں میں زندہ رہ جاتے ہیں۔ اللہ کشمیر،فلسطین اوربرما سمیت عالم اسلام کے تمام زخموں پرمرہم رکھے گا بس ہمیں سوچنا ہے کہ ہمارابحیثیت فرد اس میں کیاکردار ہوگا۔