تحریر : میر افسر امان مظفر وانی کی شہادت کے بعد جاری تحریک آزدی کشمیر در اصل تحریک پاکستان کا تسلسل ہے۔جو نعرے تحریک پاکستان کے زمانے میں مسلمانانِ برصغیر لگایا کرتے تھے وہی نعرے کشمیر کے مسلمان لگا رہے ہیں۔ تاکہ تکمیل پاکستان کی تحریک مکمل ہو۔ کشمیر میں پاکستان کے پرچم لہرائے جا رہے ہیں۔ اب تو کشمیریوں کے محسن چین کے پرچم بھی لہرائے جاتے ہیں۔ پاکستانیوں سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ۔ہم کیا چاہتے ہیں آزادی ۔ہم پاکستان سے ملنا چاہتے ہیں۔جموں و کشمیر فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک نے کہا ہے جیل ہمارا دوسرا گھر ہے۔زندان یا شہادت ہمارا مقدر ہے ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ہمیں آزادی کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔حریت کانفرنس کے سربراہ سید علی گیلانی نے پہلے سے کہہ دیا ہے بھارت ہمارے سڑکوں پر تارکول کے بجائے سونا بھی ڈال دے ہم آزادی کے بغیر کسی چیز کے حق میں نہیں۔ میر واعظ فاروق کہتے ہیں ہندو بنیے سے آزادی سے کم پر کسی سے بات نہیں کریں گے۔ بھارت کی وحشی فوج نے بیلٹ گن سے ہزاروں کشمیریوں کو اندھا کر دیا ہے۔
بھارتی فوج دیہاتوں اور قصبوں میں آپریشن توڑ پھوڑ کر کے بدترین تشدد کر رہی ہے۔کشمیر میں تازہ مظالم کے کئی روز گزر چکے ہیں۔سری نگر میں شہدا کشمیر کی کئی قبرستان وجود میں آچکے ہیں۔سیکڑوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا گیا ہے۔نوجوانوں کو قید کے دوران اذیتیں دے دے کر اپاہج کر دیا گیا ہے۔سیکڑوں عزت مآب کشمیری خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی ہے۔سیکڑوں کشمیریوں کوغائب کر دیا گیا ہے جن کی مائوں، بیویوں، بہنوں، اور بیٹیوں کے آنسو ان کے غم میں بہہ بہہ کر ختم ہو گئے ہیں۔ کشمیریوں کی آزادی کی جد وجہد بہت پرانی ہے۔ زمانے کی ستم طریفی دیکھیں کہ جومہاراجہ کشمیر کے ایک مسلمان کے اصطبل کا ملازم تھا سازش کر کے کشمیر کا مہاراجہ بن بیٹھا۔ کشمیریوں کی ظلم کی داستان بہت طویل ہے۔ کشمیریوں کو انگریزوں نے چند نانک شاہی سکوں کے عوض سکھوں کو فروخت کیا تھا جس پر علامہ اقبال شاعر اسلام نے اپنے تاریخی شعر میں اس طرح بیان کیا تھا۔
قومے فروختن وچہ ارزاں فروختن۔راجہ کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھاتا تھا۔ ہنددوں کی قدیم زہنیت کہ مسلمان پلیج ہیں جس راستے سے گزرتا، اگر اس راستے میں کوئی مسلمان گزر جاتا تو اس راستے کو پانی سے دھلواتا تھا۔ کشمیری مسلمان سے بیگار لیتا تھا۔مسلمانوں کو زندہ اُلٹا لٹکا کرکھال اتارتا تھا۔ راجہ کے ان مظالم سے تنگ آکر مسلمان کشمیر سے ہجرت کر کے کشمیر سے ملحق قریبی شہروں میں منتقل ہوتے رہے ہیں۔آر ایس ایس کی لیڈر موہن بھگوت نے بھارت کو ایک ہندو راشٹریہ یعنی ہندو ریاست قرار دیا۔حریت کانفرنس نے اس کی تائید کی کہ ہاں واقعی بھارت ایک ہندو ریاست ہے۔ اپنے آبائی نظریہ کے مطابق کشمیری مسلمانوں کوپلیج سمجھتے ہوئے ظلم کی چکی میں پیس رہے ہیں۔ جیسے آرئیائوں نے ہند کی قدیم آبادی دراڑوں کو مار مار کے شودر بنا دیا تھا۔ یہی رویہ بھات کی متعصب ہندو ریاست نے بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ ظلم کی انتہا ہو گئی ہے۔ہند کی تقسیم کے وقت یہ طے ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم دو وقومی نظریہ کے مطابق ہو گی۔ جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہے وہ پاکستان کے ساتھ اور جن علاقوںمیںہندو اکثریت میں ہیں وہ بھارت کے ساتھ شریک ہو نگے۔ رہا معاملہ ریاستوں کا تو جو ریاست بھی جس ملک یعنی پاکستان یا بھارت کے ساتھ شریک ہونا چاہتی ہے شریک ہو جائے۔ اس فطری تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان میں شریک ہونا تھا۔ مگر بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں ڈال کر کشمیر کے مسلمانوں کے حق پر ڈاکا ڈالا اور انہیں پاکستان کے ساتھ ملنے سے روک دیا۔ کشمیر کے مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگ آزدی شروع کر دی۔اِدھر پاکستان نے بھی کشمیریوں کی مدد کی۔
Quaid e Azam
قائد اعظم نے پاکستان کے انگریز سپہ سالار کو کشمیر پر حملہ کرنے کے آڈر دیے تو اس نے ماننے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کے قبائل کشمیریوں کی مدد کے لیے میدان جنگ میں اترے اور موجودہ آزاد کشمیر کے تین میل لمبے اور تین میل چوڑے حصہ کو آزاد کرا لیا۔ مجاہدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں گئے اور وعدہ کیا کہ امن قائم ہونے کے بعد کشمیریوں کو آزادی رائے کا حق دیں گے کہ جس کے ساتھ چائیں شریک ہو جائیں۔ اقوام متحدہ نے نہروکی اس وعدے پر جنگ بندی قبول کر لی۔ کچھ مدت تک نہرو اس وعدے پر قائم رہے۔ بعد مین جب اپنی گرفت پکی کر لی تو اپنے وعدے سے مکر گئے۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے کئی قراردادیں بھی پاس کیں مگر مسلم دشمنی کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کروا سکیں۔ انڈونیشیا کے مشرقی تیمور میں فوراً عیسایوں کاالگ ملک قائم کر دیا۔ سوڈان میں بھی عیسائیوں کو آزادی دے کر سوڈان سے علیحدہ عیسائی ریاست بنا دی مگر کشمیر کی قراردادوں پر آج تک عمل نہیں کروا سکی۔ جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے تو بھات نے ١٩٤٨ء میں” حقوق انسانی کے عالمی منشور” پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ مگر ان حقوق کی کشمیر میں مٹی پلید کر رہا ہے۔کشمیر جس پر بھارتی سامراج کا تاریخ جغرافیہ۔ تہذیب و ثقافت اور قانونی حوالے سے کوئی حق نہیں بنتاہے ۔آج جس طرح بھارتی بگلا بھگتوں کی ہٹ ت دھرمی، تعصب اور ہوسِ ملک گیری کے باعث ایک شورش زدہ علاقے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ وہ نام نہاد سیکولر اور جمہوری بھارت کے چہرے پر ایسا بدنماداغ ہے جو ” گنگا جل” سے دھویا نہیں جا سکتا ہے۔
نہتے مظلوم کشمیر ی آہ و فغاں کر رہے ہیں۔ گلاپھاڑ پھاڑ کر چلاّ رہے ہیں۔خوشحال بستیوں کو اُجاڑ کر یہاں نئی فوجی چھائونیاں آباد کی جا رہی ہیں۔ آئین کو ختم کر کے تاڈا،افسا اور پبلک سیفٹی ایکٹ کے کالے قانون فوجی قانون نافذ کیے ہیں۔ فوجی اور پولیس دہشت گردی نے کشمیریوں کا جینا دوبھرکر دیاہے۔مسلمہ حریت قیادت جیلوںاور عقوبت خانوں میں جوانی ، بڑھاپے سے موت تک سفر طے کر رہے ہیں۔پائوں میں بیڑیاں زبان پر تالے ڈال کر چلنے اور بولنے سے روک دیا گیا ہے۔ریاست میں نفرت، عداوت، فر قہ واریت، علاقیت اور لسانیت کی فضا بنا کر حریت پسند کشمیری عوام کو آپس میں الجھا کر ان کے پیدائشی حق خوارادیت کے جائز حق سے محروم کرنے کی بھونڈی کو شش کی ہے۔کشمیری عوام اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب اپنی قراردادوں پر عمل کر واتی ہے۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمست کونسل آف پاکستان