تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کی تقسیم اسی فارمولے پر ہوئی تھی کہ جن علاقوں میں ہندو اکثریت ہے وہ بھارت میں شامل ہونگے اور مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کا حصہ ہونگے۔ لیکن اس واضح اصول کے باوجود بھارتی لیڈران نے اندرونی سازباز کے ذریعے کئی مسلم علاقوں پر جبری قبضہ کیا یا ان علاقوں کی عوام سے حق رائے دہی (ووٹنگ) کو غضب کرتے ہوئے وہاں کے حکمرانوں سے کوڑیوں کے بھاو انسانی زندگیوں اور ان کی سرزمین کا سودا کیا ۔ اسی کے تحت حیدر آباد ، جونا گڑھ ، بہار ، یوپی ، سی پی ، گجرات اور بہت سے علاقے جو قانونی اخلاقی مذہبی ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ تھے ، لیکن بھارتی ساز باز نے ان علاقوں کو دھمکا کر یا خرید کر یا جبرا اپنے قبضے میں لے لیا اور اس سے بڑی بے ایمانی کشمیر کے حکمران کیساتھ مل کر کشمیریوں کی غیر انسانی خریدوفروخت جیسے شرمناک عمل سے کی گئی ۔ کشمیر کا کچھ حصہ ہمارے قبائلی جوانوں کی بہادری سے آذاد کشمیر کے نام سےحاصل کر لیا گیا لیکن فوجی اسباب کی کمی کی وجہ سے وہاں بڑی جنگ کے وسائل نہ ہونے کے سبب باقی موجودہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارتی افواج اتار کر اس علاقے پر قبضہ کر لیا گیا ۔ جسے 5 اگست 2019ء کو اس کے ساری انسانی حقوق غصب کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا ۔
کشمیر کا مسئلہ دنیا بھر کے لیئے تباہی کی ایک گھنٹی ہے جو موقع موقع پر بجائی تو جاتی ہے لیکن اس کے بعد پھر سے ایک معنی خیز خاموشی چھا جاتی ہے ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ستر سال سے اپنی جان مال عزتوں کی بے مثال قربانیوں کی تاریخ رقم کرنے والی کشمیری قوم اپنا حق رائے دہی حاصل نہیں کر سکی ۔ اس علاقے کی قسمت کا فیصلہ اس کی عوام کے ہاتھوں نہ ہو سکا ؟
وجہ وہی ہے جودنیا میں ایسی تحریکوں کی ناکامی میں نظر آتی ہے یعنی ان کے رہنماوں میں شامل وہ کالی بھیریں جو آئے دن اپنے ضمیر کا سودا کر کے خود تو عیاشی کر تے ہیں لیکن آذادی کی تحریکوں میں کیڑے کی طرح لگ جاتے ہیں ۔ روز ایک نیا شوشہ چھوڑتے ہیں اور بنتی بنتی رائے عامہ کو سبوتاژ کر دیتے ہیں ۔ اپنے سینے پر پاکستان کا پرچم لپیٹ کر آسودہ خاک ہو جاتے ہیں اور یہ بے ضمیر کالی بھیڑیں ان
جوانوں کا خون نالیوں میں بہا دیتے ہیں ۔ عزتوں کے لٹیروں کے ہاتھ مضبوط کر دیتے ہیں ۔ کشمیر میں بھی پاکستان یا بھارت کیساتھ الحاق کے بنیادی اصول کیخلاف ایسے ہی رہنماوں کی زہر فشانیاں عالمی تناظر میں اس کیس کو نہ مضبوط ہونے دیتی ہیں اور نہ ہی سنجیدگی اختیار کرنے دیتی ہیں ۔ اسی لیئے یہ مسئلہ تصفیہ طلب ہی رکھا جا رہا ہے ۔ اس کے قصور وار اسی سرزمین سے تعلق کی دعوے داری کرنے والے یہی شرپسند نام نہاد رہنما ہیں ۔ جو خود تو کشمیر سے باہر رہ کر دنیا بھر کی نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں لیکن سال میں دو چار بار اس کی پستی ہوئی کشمیری عوام کی تحریکوں کی جڑوں میں زہر ڈالنے کے لیئے منظر پر آ موجود ہوتے ہیں ۔ جبکہ نہ تو کشمیر کے لیئے ہونے والے کسی مظاہرے میں ان کی اولادیں شامل ہوتی ہیں اور نہ ہی۔ان کے گھروں کی خواتین ۔ ان کے لیئے کشمیری مظاہرے کا دن گھروں میں دعوتوں اور پکنک کا دن ہوتا ہے ۔
ایسے مواقع پر مظاہروں میں اگر پاکستانی خواتین کسی کی جانب سے مدعو کرنے یا درخواست کرنے پر آ بھی جائیں تو ان جلسوں میں شامل بیہودہ چھڑے چھانٹ نوجوان ان پر اشارے بازیاں کرتے ہیں ۔ان کی کردار کشی کی جاتی ہیں اور جانے کیا کیا زہر اگلا جاتا ہے ۔ کیونکہ خود انکے ساتھ انکے اپنے گھر کی خواتین موجود نہیں ہوتیں اور وہ دوسروں کی خواتین ان کے لیئے تماشے کا سامان ہوتی ہیں ۔ انکے یہاں آنے کا مقصد انہیں دکھائی نہیں دیتا جس کے سبب ان کی زیادہ عزت کی جائے کہ وہ اپنے تمام ضروری کام چھوڑ کر اپنے بچوں کو اس مقصد کے لیئے تحریک دلا کر یہاں تک ساتھ لیکر آئی ہیں ۔
لیکن یاد رکھیئے دنیا کی ایسی کوئی تحریک کبھی نہ تو کامیاب ہوئی ہے نہ ہی ہو سکتی ہے جس میں اس کے اپنے رہنماوں کی گھر کی عورتیں ان کے ساتھ نہ کھڑی ہوں ۔ اپنے گھر کہ خواتین کو اپنی ہی تحریک سے الگ کر دینے کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی ہی تحریک کا آدھا بدن مفلوج کر لیا ۔ اب آپ گھسٹ سکتے ہیں کامیاب کبھی نہیں ہو سکتے ۔ کشمیر کے لیئے ایک شرپسندانہ نعرہ جسے ہوا دی جا رہی ہے وہ ہے خودمختار کشمیر ۔ جبکہ کشمیر کا محل وقوع، آبادی ، اور دیگر عوامل اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ خودمختار کشمیر علاقے کا ایک بہت بڑا فتنہ بن جائے گا ۔ اسکی حیثیت خطے میں ایک بلیک میلنگ پوائنٹ سے زیادہ ہر گز نہیں ہوگی ۔ بڑی طاقتیں اسے اپنے اڈے کے طور استعمال کرتے ہوئے دنیا کے لیئے ایک بڑا فتنہ بنا دینگی ۔ خود کشمیریوں کا وجود اور نسل خطرے میں پڑ جائے گی ۔ انکی آمدنی کو محظ سیاحت اور قالین بافی سے منسلک کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو علاج کے بجائے خود ساختہ طور پر آکسیجن کے سلنڈر پر تمام عمر گزارنے کا مشورہ دیدیا جائے۔ ایسے مشیران اور رہنما ہی کشمیریوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں ۔
کشمیریوں کو حق رائے دہی ضرور ملنا چاہیئے اسی طرح جس طرح تقسیم ہند کے وقت ریاستوں کے لیئے اصول وضح کیا گیا تھا ۔ جس کی رو سے وہ تمام علاقے جو مسلم اکثریتی ہیں، پاکستان کا حصہ ہونگے جبکہ تمام ہندو اکثریتی علاقے بھارت کا حصہ ہونگے ۔ اسی اصول کے تحت کشمیر کو پاکستان کا لازمی حصہ سمجھتے ہوئے پاکستان 73 سال سے بھارت جیسے مکار دشمن کیساتھ حالت جنگ میں ہے ۔ کشمیری ووٹ کے ذریعے پاکستان یا بھارت میں سے جس بھی ملک کیساتھ شامل ہونا چاہیں ہو سکتے ہیں ۔
لیکن 5 اگست 2019ء کی بھارتی جآرحیت اور سازش کے بعد وہاں جس طرح سے مسلم کشی کی جا رہی ہے ، وہاں کی زمینوں کو غیر کشمیوں کی ملکیت بنایا جا رہا ہے اور غیر کشمیریوں کو وہاں جبرا آباد کیا جا رہا ہے ۔اس کے بعد اب اس حق رائے دہی کے لیئے مذید مضبوط مقدمے کی ضرورت ہے جس میں 5 اگست 2019ء سے پہلے سے یہاں آباد کشمیریوں کو ہی اس علاقے کے فیصلے کی لیئے ووٹ کا حق دیا جائے اور انہیں کا فیصلہ آخری ہونا چاہیئے ۔ مصنوعی کشمیریوں کو کبھی بطور ووٹر قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ایسا ہونا کشمیریوں کے خون اور لٹی ہوئی عزتوں کیساتھ کھلی غداری ہو گا ۔۔اور سچا کشمیری کبھی غدار نہیں ہو سکتا