تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری مقبوضہ کشمیر میں معصوم شہری فاروق ڈار کو ہیومن شیلڈ بنا کر اسے سرکاری گاڑی کے آگے باندھنے والے بھارتی میجر لیتل گگوئی کو ایوارڈ دیا گیا ۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیریوں ظلم و ستم انکی سرکاری پالیسی کا حصہ ہے۔ بھارتی میجر نے شہری کو جیپ سے باندھ کر علاقے میں گشت کروا کر یہ پیغام ریا کہ مقبوضہ وادی میں کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں جسے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انسانیت کی توھین قرار دیا ہے افسوس تو اس امر کا ہے اقوام متحدہ اور عالمی میڈیا خاموش ہیں انہیں کشمیر میں ہونے والا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں حالانکہ مقبوضہ وادی میں گزشتہ چھ روز سے بھارتی فوج کی جانب سے معصوم نہتے کشمیریوں ہر زندگی تنگ کی جا رہی ہے ۔ 6 روز میں 40 بے گناہ شہریوں کو شہید کیا جا چکا ہے جبکہ 2500 سے زائد زخمی مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں ممتاز مجاہد کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد پورے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود احتجاجی مظاہرین پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں اور اس خونی ھولی میں سینکڑوبں کشمیری نوجوان شہید اور بے شمار وزخمی ہو چکے ہیں اور ظلم کی انتہا یہ ہے کہ زخمیوں کو ہسپتال لے جانوں والوں پر بھی تشدد کیا جاتا ہے ۔ اس ظلم و ستم کے باوجود لوگ ہزاروں کی تعداد میں ریلیاں نکال رہے ہیں کشمر کی آزادی کے لئے پر عظم ہیں ہم آزادی کے ان متوالوں کو سلام پیش کرتے اور ان نہتے کشمیریوں پر بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی پر زور مذمت کرتے ہیں۔
حال ہی میں انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد کولیشن آف سول سوسائٹی نے دو سال کی محنت کے سے ‘تشدد کے خدوخال ، جموں کشمیر میں بھارتی ریاست’ کے عنوان سے ایک رپورٹ تیار کی ہے ۔26 سالہ شورش کے دوران یہ پہلا موقعہ جب کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق اس نوعیت کی ہمہ جہت رپورٹ تیار کی گئی ہو۔ رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ کشمیر میں فوجی اور نیم فوجی اداروں کے بنیادی ڈھانچہ کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابق کل ملا کر کشمیر میں فی الوقت سات لاکھ سے زائد بھارتی فورسز موجود ہیں۔ ان میں پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔
رپورٹ میں زمینی سطح پر کی جانے والی تحقیق کا حوالہ دے کر بتایا گیا ہے کہ ملٹری انٹیلیجنس کے 1781، انٹیلی جنسی بیورو یا آئی بی کے 364 اور ریسرچ اینڈ اینالیسز یا را کے 556 اہلکار جموں کشمیر کے 22 اضلاع میں سرگرم ہیں۔اس رپورٹ میں 1080 حراستی ہلاکتوں 172 حراستی گمشدگیوں اور جنسی زیادتیوں اور حراست کے دوران جسمانی اذیتوں کے متعدد واقعات کی تفتیش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کے 267 سینیئر افسروں سمیت 972 اہلکاروں کو انسانیت کے مختلف جرائم میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔
ان میں فوج کے ایک میجر جنرل، سات بریگیڈیئر، 31 کرنل، چار لیفٹنٹ کرنل، 115 میجر اور 40 کیپٹین شامل ہیں۔ عالمی حکومتوں سے اپیل کی گئی ہے کہ ان اشخاص کے بین الاقوامی سفر پر پابندی عائد کی جائے۔ اقوام متحدہ سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ ایسے اہلکاروں کو قیام امن کی عالمی فورسز کا حصہ نہ بنایا جائے۔
رپورٹ میں شورش کے اوائل میں عسکریت پسندوں کی صفوں سے ہی انسداد تشدد کی ملیشیا بنانے کے فوجی آپریشن پر بھی وضاحت ہے۔عسکریت پسندوں کے آپریشنز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہلال بیگ اور سجاد کینو جیسے کمانڈروں کی سٹوڈنٹس لبریشن فرنٹ نے ہی کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مشیرالحق، او این جی سی کے سربراہ کے دورائے سوامی اور ہند نواز سیاستدان سیف الدین سوز کی بیٹی ناہیدہ سوز کا اغوا کیا تھا۔
رپورٹ میں عالمی اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کے مطالبے کو کشمیر میں لوگوں کے حقوق کو تسلیم کرنے اس ان کے تحفظ سے مشروط کیا جانا چاہیے۔ انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کم از کم 12 ورکنگ گروپوں کے نمائندوں کو جموں و کشمیر میں حالات کے مشاہدے کی اجازت کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
جموں کشمیر میں موجود چھ ہزار گمنام قبروں کی تحقیقات کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ہے۔ واضح رہے سنہ 2008 میں یورپی پارلیمنٹ میں ایک قرار داد کے ذریعے بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔اس سے قبل بھی کولیشن آف سول سوسائیٹیز یا سی سی ایس نے کئی رپورٹیں جاری کی ہیں۔ گذشتہ برس 500 پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی فہرست پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی گئی۔ ان افسروں اور اہلکاروں کے مبینہ ظلم کے شکار افراد یا ان کے اہل خانہ کے شواہد پر مشتمل اس رپورٹ پر کافی بحث ہوئی۔
سی سی ایس کی تازہ رپورٹ میں جموں کشمیر کے چپے چپے میں قائم فوجی اور نیم فوجی کیمپوں کے ڈھانچہ سے متعلق اعداد وشمار اور سرگرمیوں کا احوال پیش کیا گیاہے۔ اس رپورٹ کے نگراں خرم پرویز کہتے ہیں: ’دراصل کشمیر کا فوجی جماو عالمی میڈیا سے اوجھل ہے۔ ٹی وی پر جو خطے دکھائے جاتے ہیں وہاں زندگی معمول کے مطابق لگتی ہے۔ لیکن ظلم و ستم کی داستانیں تو دوردراز دیہات میں رقم ہورہی ہیں۔‘
خرم نے بتایا کہ عالمی اداروں اور بیرونی ممالک کے سفارتخانوں کے علاوہ یہ رپورٹ وزیراعظم نریندر مودی، وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ ، کشمیر کے وزیراعلی مفتی محمد سعید اور فوجی سربراہوں کو بھی ارسال کی گئی ہے۔