کشمیر میں بھارتی مظالم کو لگام دو

Indian Army

Indian Army

تحریر : سعد فاروق

مقبوضہ کشمیر دنیا کا ایسا خطے ہے جو قدرتی حسن میں بےمثال ہے۔ دنیا بھر میں کشمیر کی خوبصورتی کے چرچے ہیں سرینگر کی ڈل جھیل کو جو ایک دفعہ دیکھ لے پلک جھپکانا بھول جاتا ہے۔ یہاں کےگلمرگ کو دیکھنے کے لیے لوگ کئی کئی دن کے فضائی سفر کرتے ہیں۔ اس کشمیر کے گھنے اور پرخطر جنگلات کو دیکھنے دنیا بھر سے لوگ جان کی پروا کیے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔ یہ کشمیر 70 سالوں سے ایک جیل کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں کی خوبصورتی کی مثال ڈل جھیل بھارتی فوج کے ظلم کی ایک تصویر بیان کرتی ہے۔ اس جھیل میں کشتی چلانے والوں کی لاشیں ہی ملتی ہے۔ اب دنیا میں ہر کسی کی زبان سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی بجائے لہو لہو کشمیر ہی نکلتا ہے۔ یہاں کے نکلتے دن بھارتی فوج کی درندگی کو دیکھاتے رات میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو رات بھی کسی قیامت کا منظر پیش کرتی ہوئی دن میں تبدیل ہو جاتی لیکن یہاں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ جنازے اٹھانا، زخمیوں کو بلکتے دیکھنا ، بینائی سے محروم ہونا اس مقبوضہ خطے میں معمول کی بات ہے۔

یہاں بھارتی دہشت گردی کا شکار ، بینائی سے محروم 18 ماہ کی معصوم حبا انسانی حقوق کےا داروں کو نظر نہیں آتی۔ یہاں 80 سال کی بھارتی فوج کے ہاتھوں اجتماعی زیادتی کا شکار خاتون کسی بین الاقوامی ادارے کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔انسانی حقوق کے اداروں کی نظر جائے تو کیسے جائے یہاں کوئی نادیہ یزیدی نہیں رہتی یہاں کوئی ملالہ یوسفزئی نہیں رہتی۔ یہاں کسی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی نظر نہیں پڑتی ، یہ خطہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اسی کشمیر میں آسیہ اور نیلوفر کو اجتماعی زیادتی کے بعد شہید کرکے ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے، یہاں کی آسیہ اندرابی کو بھارتی فوج کے غاصبانہ قبضے کے خلاف بولنے پر دنیا کی نظروں سے دور جنگلوں میں قائم جیلوں میں غیر قانونی طور پر قید کر دیا جاتا ہے۔

اسی کشمیر میں آزادی کا مطالبہ کرنے والے سید علی گیلانی کی زندگی ایک کمرے تک محدود کر دی جاتی ہے، اسی کشمیر کے نوجوان مسرت عالم بھٹ کی جوانی جیلوں میں اذیتوں سہتے گزر رہی ہے۔ یہاں کوئی قانون نہیں چلتا یہاں صرف بھارتی فوج کی گولیاں چلتی ہیں، یہاں زندگیوں کا خاتمہ ٹشو پیپر سے بھی جلدی ہوتا ہے۔ اسی مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ایک دن قبل ریاستی دہشتگردی کی انتہا کرتے ہوئے 14 نہتے کشمیریوں کو شہید کرکے کر دیا، 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ قابض فوج نے نہتے مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی، قتل عام کیخلاف وادی بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے، پلوامہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔بھارتی تسلط کیخلاف اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے گئے، کئی مقامات پر مظاہرین نے ترنگا بھی جلایا۔ حریت قیادت نے تین روزہ سوگ کا اعلان کر دیا۔

پاکستان نے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ واقعات کی انکوائری کیلئے اقوام متحدہ کمیشن بنائے۔ پلوامہ کے علاقے خرپورہ سرنو میں بھارتی فوج نے جعلی سرچ آپریشن کے دوران متعدد لوگوں کو گھروں سے نکالا اور خواتین کی بے حرمتی کی، اس آپریشن کے دوران قابض فوج نے تین جوانوں کو شہید کر دیا۔نوجوانوں کی شہادت کے خلاف علاقے میں کشیدگی پھیل گئی، سخت سردی کے باوجود ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور متاثرہ علاقے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، اس دوران ان کی قابض فوج سے شدید جھڑپیں بھی ہوئیں، مظاہرین نے بھارت مخالف نعرے بلند کئے۔فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے سیدھی فائرنگ کر دی جس سے 7 مظاہرین موقع پر شہید ہو گئے جبکہ دیگر افراد نے ہسپتال جا کر دم توڑا۔ پلوامہ ہسپتال کے ڈاکٹر نے میڈیا کو بتایا کہ شہید ہونیوالے تمام افراد کے سر میں گولی ماری گئی۔

جعلی آپریشن میں شہید تین نوجوانوں کی شناخت ظہور احمد ٹھوکر، عدنان حامد بھٹ اور بلال احمد ماگرے کے نام سے ہوئی۔ ظہور احمد ٹھوکر نے ایک سال قبل بھارتی فوج کی نوکری چھوڑ دی تھی۔فوج کی فائرنگ سے شہید ہونیوالے مظاہرین میں شہباز علی، سہیل احمد، لیاقت احمد، مرتضیٰ بشیر، امیر احمد، عابد حسین لون (ایم بی اے پاس تھا اور اپنی انڈونیشی اہلیہ کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ہی واپس آیا تھا)، 14 سالہ عاقب احمد، شاہد احمد خاندے اور دیگر شامل ہیں۔سوپور میں شدید کشیدگی کے بعد کرفیو نافذ کر دیا گیا، بڑی تعداد میں قابض فوج کے اضافی دستے بھی علاقے میں پہنچ گئے۔ واقعہ کیخلاف سرینگر، سوپور، شوپیاں اور وادی کے دیگر علاقوں میں بھی مظاہرے شروع ہو گئے جس کے بعد ریلوے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کر دی گئی۔سرینگر میں شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پلوامہ اور دیگر علاقوں میں شہدا کو سپرد خاک کر دیا گیا، نمازجنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے۔ قتل عام کیخلاف حریت قیادت نے تین روزہ ہڑتال اور سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔

حریت قیادت نے پیر کو سری نگر کے علاقے بادامی باغ کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔میر واعظ عمر فاروق نے ایک بیان میں کہا کہ کشمیریوں پر پیلٹ گنز کے چھروں اور گولیوں کی بارش ہو رہی ہے، انڈین حکومت نے کشمیریوں کو فوج کے ذریعے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، حریت قیادت اور عوام پیر کو بادامی باغ چھاﺅنی کی طرف مارچ کریں گے اور حکومت سے مطالبہ کریں گے تمام کشمیریوں کو الگ الگ مارنے کے بجائے ایک ساتھ ہی مار دیں۔وادی بھر میں تمام امتحانی پرچے ملتوی کر دئیے گئے ہیں۔ مقبوضہ وادی کے دو سابق وزرائے اعلیٰ نے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا کہ کوئی بھی ملک اپنے ہی شہریوں کو مار کر جنگ نہیں جیت سکتا، کب تک ہم اپنے نوجوانوں کی لاشوں کو اٹھاتے رہیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قتل عام بند کیا جائے۔سابق کٹھ پُتلی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی اسے قتل عام قرار دیتے ہوئے کہا کہ طاقت کے بے جا استعمال کا کیا جواز ہے، اس قتل عام کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔

دوسری جانب بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر کے شہری علاقوں میں نئے سرے سے فوجی بنکر قائم کرنے شروع کر دئیے ہیں۔ دس اضلاع بالخصوص گرمائی دارالحکومت سری نگر میں فورسز کے بنکر قائم ہونا شروع ہو گئے ہیں۔بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بھارتی فوج کے سامنے مزاحمت کرنیوالے کشمیری سنگ باز نوجوانوں کو دہشتگرد قرار دیدیا ہے۔ کشمیریوں کے قتل عام کے خلاف وز خارجہ شاہ محمود قریشی نے دنیا بھر میں پاکستانی سفارتخانوں کو ہدایات جاری کیں ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کو اجاگر کریں۔دفتر خارجہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ کل 14 کشمیری بھارتی فورسز کی فائرنگ سے شہید ہوئے اور کُل 300 سے زائد کشمیریوں کو زخمی کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت جاری ہے اور گزشتہ ماہ نومبر میں 18 نہتے کشمیریوں کو شہید کیا گیا، دنیا کی ترجیحات میں کشمیر نہیں ہے لیکن دنیا اتنی بے حس اور لاتعلق نہیں ہو سکتی۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ 2016 میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم نے شدت پکڑ لی اور پوری دنیا کی توجہ اس ظلم و بربریت کی جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کیوں کہ بھارتی فوج کا ایک ہی مقصد واضح ہے کہ کشمیریوں کا قتل عام کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرکی حالیہ صورتحال پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری، ہیومن رائٹس کمیشن اور اوآئی سی کے سیکریٹری جنرل کو خطوط لکھے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اقوام عالم مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم بند کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل سے ٹیلیفون پر بات کی اوران کو کشمیر کی حالیہ صورتحال پر توجہ مبذول کرائی جب کہ ان سے بات کی ہے کہ کانٹیکٹ گروپ کا اجلاس طلب کیا جائے اور پاکستان کانٹیکٹ گروپ کی میزبانی کیلئے تیار ہے، اگر پاکستان میں اجلاس کرانے میں کوئی دشواری ہے تو اجلاس جدہ میں بھی کرایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدہ میں پاکستانی قونصل خانہ اس سلسلے میں باقاعدہ درخواست او آئی سی کو جمع کرائے گا۔

وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ 5 فروری کو کشمیر کے حوالے سے لندن میں عالمی کانفرنس کی تجویز ہے، کشمیر ایشو پر تمام سیاسی جماعتیں ایک مؤقف رکھتی ہیں اور تمام جماعتیں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر میں ظلم وستم کیخلاف نکلیں۔ 19 فروری کو برسلز میں یورپی یونین اور یورپین پارلیمنٹ کی مسئلہ کشمیر پر پبلک سماعت ہوگی، یورپین پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر پبلک سماعت کی حمایت بھی کریں گے اور حصہ بھی بنیں گے۔انہوں نے کہا کہ کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر میں جاری بربریت کیخلاف متفقہ مذمتی قرارداد بھی آنی چاہیے۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے پلوامہ میں معصوم کشمیریوں کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہر سطح پر اٹھائیں گے۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری پیغام میں وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر کا تنازع قتل اور تشدد سے نہیں صرف مذاکرات سے حل ہوگا، سلامتی کونسل حق خود ارادیت دینے کے وعدے پر عمل کرے۔انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھائیں گے، سلامتی کونسل کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق حل کرائے۔موجودہ حکومت کی جانب سے کشمیریوں کے قتل عام پر فوری ردعمل سامنے آنا خوش آئند بات ہے لیکن ان باتوں اور اعلانات کے علاؤہ عملی قدم اٹھانا وقت کی ضرورت ہے۔

جنوری انیس سو نواسی سے اب تک 95 ہزار 238 کشمیریوں کو شہید کیا۔گیارہ ہزار ایک سو سات خواتین کو حراساں کیا گیا جبکہ ایک لاکھ نو ہزار ایک سو اکانوے گھروں کو تباہ کیا۔ صرف جولائی دو ہزار سولہ میں برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی فوج نے آٹھ سو چھیالیس کشمیریوں کو شہید اور پچیس ہزار کو زخمی کر دیا۔ کشمیریوں کی دن بدن گرتی لاشیں مذمتی قرارداد نہیں عملی اقدام مانگتی ہیں۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے بھارتی مظالم کی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد سے بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی میں کمی کی بجائے اضافہ ہونا بھارتی ہٹ دھرمی کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت بات چیت کی بجائے صرف جنگ چاہتا ہے۔ مودی حکومت مسلسل اشتعال انگیزیوں سے اگلے انتخابات میں کامیابی کے خواب دیکھ رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کو بھارتی مظالم کے خلاف متحد کرکے بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں لانا چاہیے یہی وہ واحد راستہ ہے جس سے کشمیریوں کی نسل کشی میں کمی آ سکتی ہے۔

Saad Farooq

Saad Farooq

تحریر : سعد فاروق