کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جموں میں فضائی اڈے پر ڈرون حملے میں ممکنہ طور پر پاکستانی شدت پسندوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کو بھارتی فضائیہ کے اڈے پر ڈرون حملوں کے بعد پیر کو بھی ایک عسکری اڈے پر ڈرون سے حملہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم اسے ناکام بنا دیا گيا ہے۔ فوج کے ایک ترجمان کے مطابق فوری طور پر جوابی کارروائی سے ممکنہ طور پر ایک بہت بڑا خطرہ ٹل گيا ہے۔
جموں میں فوج کے ایک ترجمان لیفٹینٹ کرنل دیوندر آنند نے 28 جون پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ رتنو چک اور کالوچک میں تعینات ’’فوجی حکام نے عسکری تنصیبات کے آس پاس ڈرون کی دو سرگرمیاں نوٹس کی تھیں۔ حکام نے دیکھتے ہی فوری طور پر ریڈ الرٹ جاری کیا اور ان پر فائرنگ سے جوابی کارروائی کی گئی۔ دونوں ڈرون دوسری جانب پرواز کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔ فوج کی مستعدی اور فعال حکمت عملی سے ایک بڑے خطرے کو ٹال دیا گيا ہے۔‘‘
جموں میں فوجی ترجمان کرنل دیوندر کے بیان کے مطابق خطے میں سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور تلاشی مہم زور شور سے جاری ہے۔ تاہم حکام نے یہ نہیں بتایا کہ یہ ڈرون کس جانب سے آئے تھے یا پھر اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت بھارت اور پاکستان کی سرحد اور ایل او سی کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔
اس سے قبل اتوار کے روز جموں میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر دو دھماکے ہوئے تھے جس میں بھارتی ایئر فورس کے دو اہلکار زخمی اور فوجی اڈے کی ایک عمارت کو نقصان پہنچا تھا۔ بعد میں حکام نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ دونوں بم دھماکے ڈرون کی مدد سے کیے گئے تھے اور اس کے پیچھے شدت پسندوں کا ہاتھ ہے۔
جموں کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دل باغ سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ اتوار کی صبح جموں ایئر فورس اسٹیشن کی عمارت پر کم شدت والے دو دھماکے دہشت گردانہ حملے ہیں۔ بھارتی میڈیا سے بات چیت میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیچھے ’’پاکستانی شدت پسند تنظیم، لشکر طیبہ یا پھر جیش محمد کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔‘‘
دریں اثنا پولیس نے کشمیر کے معروف شہر سرینگر سے بعض شدت پسندوں کو دھماکہ حیز مواد کے ساتھ گرفتار کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس کا تعلق جموں حملے سے ہے یا نہیں۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں شدت پسندوں کی جانب سے فدائین اور خود کش حملوں کے تو اب تک کئی واقعات پیش آ چکے ہیں تاہم حکام کے مطابق بھارت میں ڈرون کے ذریعے دہشت گردانہ حملے کا ماضی میں کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ شدت پسندوں نے ڈرون کے ذریعہ ایئر فورس کے دفتر پر بم گرایا ہو۔
اتوار کے روز پیش آنے والے واقعے میں ایک بم ایئر فورسز کی عمارت کے تکنیکی محکمے کی چھت پر گرا تھا جبکہ دوسرا دھماکہ خالی جگہ پر ہوا۔ اس سے عمارت کی چھت کو نقصان پہنچا ہے اور دو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے مختلف پہلوؤں کی تفتیش جاری ہے اور ابھی تک اس بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ جموں میں یہ واقعات جہاں پیش آئے وہاں سے لائن آف کنٹرول محض 17 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تاہم سکیورٹی ماہرین کے مطابق یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ ڈرون بھارتی سرحد کے اندر اتنا فاصلہ طے کر کے آئیں اور پے لوڈ ڈال کر محفوظ واپس بھی چلا جائیں۔
جموں کے ایک سینیئر صحافی نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ماہرین کو زیادہ شبہ اس بات پر ہے کہ حملے کے لیے ان ڈرون کو جموں کے ہی کسی پہاڑی علاقے سے اڑایا گیا ہوگا اور غالباً امکان اس بات کا ہے کہ اس میں مقامی لوگ ملوث ہوں گے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سکیورٹی حکام کو سرحد پر ڈرون سرگرمیوں کا بہت پہلے سے ہی علم ہے اور ماضی میں ایسا ایک دو بار ہو چکا ہے کہ ڈرون بھارتی علاقے میں ہتھیار گرا کر واپس ہو گئے۔
بھارتی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں بعض سکیورٹی ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح کے چھوٹے ڈرون بہت نچلی سطح پر پرواز کرتے ہیں اور وہ ریڈار کی پہنچ سے ما ورا ہوتے ہیں اس لیے ان کی نگرانی ایک مشکل عمل ہے اور بھارتی فوجی حکام کو خطے میں اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت نے تقریباً دو برس قبل کشمیر کو خصوصی اختیارات دینے والی دفعہ 370 کو ختم کر دیا تھا اور تب سے کشمیر میں فوج کا سخت پہرہ ہے۔ بھارتی حکومت کا دعوی ہے کہ ان بندشوں کی وجہ سے کشمیر میں حالات پہلے سے بہتر ہوئے ہیں۔ تاہم مبصرین کے مطابق کشمیر آج بھی اسی طرح کی تشدد، سختیوں بندشوں اور پابندیوں سے دو چار ہے۔ گزشتہ روز ہی پلوامہ میں شدت پسندوں نے ایک پولیس افسر کے گھر میں گھس کر اس پر فائرنگ کر کے پولیس افسر، ان کی اہلیہ اور ان کی بیٹی کو ہلاک کر دیا تھا۔