کشمیر (جیوڈیسک) شمالی کشمیر میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان لائن آف کنٹرول کے قریب ضلع بارہ مولا کے قصبے اُڑی میں انڈین سیکیورٹی اہلکاروں اور حملہ آوروں کے درمیان تصادم پانچ گھنٹوں تک جاری رہا۔ انڈین فوج کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں چار مسلح حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
جموں میں مقیم بھارتی فوج کی شمالی کمان کے ترجمان نے حملے میں 17 فوجی اہلکاروں کے مارے جانے کی تصدیق کی ہے۔
گذشتہ 14 سال میں بھارتی فوج پر ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ سب سے بڑا حملہ ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق یہ اسے ایک فدائی حملہ قرار دیا جارہا ہے۔
حملے کے بعد پاکستان اور انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے آپس میں رابطہ کیا، جس کے بعد انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ چاروں شدت پسندوں کا تعلق جیش محمد سے تھا ۔ انھوں نےکہا کہ ’حملہ آروں کے پاس کچھ ایسی اشیا تھیں جن پر پاکستان کی مارکنگ تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے بات کی ہے اور انھیں انڈیا کی گہری تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔‘
فوجی ترجمان نے بتایا کہ زخمی فوجیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرینگر میں واقع فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی ڈی جی ایم او نے بے بنیاد اور قبل از وقت الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اپنے انڈین ہم منصب کو کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی ایسے شواہد ہیں جن کی بنیاد پر کارروائی کی جا سکتی ہو فراہم کیے جائیں۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے دراندازی کی اجازت نہیں کیونکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری کے دونوں جانب سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات ہیں۔
اس سے قبل مقامی پولیس کا کہنا تھا کہ یہ حملہ سرینگر سے شمال کی جانب 105 کلومیٹر دُور واقع اُڑی قصبہ میں واقع بھارتی فوج کے برگیڈ ہیڈکوارٹر میں اتوار کی صبح ساڑھے پانچ بجے کیا گیا۔ واضح رہے اُڑی سے لائن آف کنٹرول صرف 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
سرینگر میں تعینات فوج کی 15 ویں کور کے ترجمان کا الزام ہے کہ ’جدید ہتھیاروں سے لیس یہ حملہ آور چند روز پہلے ہی ایل او سی عبور کر کے بھارتی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔‘
انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق پولیس نے اسے ’مشتبہ فدائی‘ حملہ قرار دیا ہے جوابی آپریشن میں شامل ایک فوجی افسر نے بتایا کہ شدت پسندوں نے برگیڈ ہیڈکوارٹر کے ایک آفس کمپلیکس میں داخل ہوتے ہی فائرنگ شروع کردی۔ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے انڈین فوج کے پیرا کمانڈوز کو جنگی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جائے واردات پر اتارا گیا۔
ساڑھے پانچ گھنٹوں کے مسلح تصادم کے دوران مسلسل دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ فوجی ترجمان نے بتایا کہ زخمی فوجیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سرینگر میں واقع فوجی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
اس حملے کے بعد نئی دلی کی وزارت دفاع اور وزارت داخلہ نے ہنگامی اجلاس کا انعقاد کیا ہے وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے اس حملے پیش نظر روس اور امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا۔
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دلبیر سنگھ سہاگ بھی حالات کا جائزہ لینے کے لیے کشمیر پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل کپوارہ، پونچھ اور جنوبی کشمیر کے بعض علاقوں میں فوجی اور نیم فوجی تنصیبات پر مسلح حملے ہوئے ہیں۔
انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق پولیس نے اسے ’مشتبہ فدائی‘ حملہ قرار دیا ہے۔
کشمیر میں تقریبا ڈھائی ماہ سے کشیدگی کی لہر جاری ہے جس میں 85 سے زیادہ افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں
خیال رہے کہ آٹھ جولائی کو مشتبہ کشمیری شدت پسند برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم میں موت کے بعد سے کشمیر وادی میں صورتحال کشیدہ ہے۔ مظاہرین کے خلاف فورسز کی کاروائیوں میں اب تک 85 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد بارہ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے پتھراؤ کی وجہ سے ساڑھے پانچ ہزار فورسز اہلکار بھی زخمی ہیں۔
اڑی میں مسلح حملے کے بعد پورے بارہ مولا ضلع میں فوج نے تلاشی مہم شروع کردی ہے۔ فوج کو شبہہ ہے کہ ضلع میں مزید شدت پسند موجود ہیں جو فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ دوسال قبل اسی ضلعے میں موہرا کے مقام پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا۔