اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعظم نے دنیا کی توجہ ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کراتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر، بھارت میں مسلمانوں پر مظالم، منی لانڈرنگ، اسرائیل اور فلسطین کا تنازع، ماحولیاتی تبدیلی، افغان امن عمل، گستاخہ خاکوں کی ترویج، کورونا وائرس کی صورتحال اور ایل او سی پر بھارتی اشتعال انگیزی سمیت اہم معاملات پر دنیا کی توجہ مبذول کرائی۔
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ستر دہائیوں سے بھارت جموں کشمیر پر قابض ہے اور بار بار اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں نوجوانوں کو اٹھایا گیا۔ بھارتی فوج کے مظالم اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی رپورٹ میں درج ہیں۔ گزشتہ سال 5 اگست کو یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کی قانونی حیثیت کو بھارت نے تبدیل کیا گیا۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کیلئے فوج کو تعینات کیا گیا۔ کشمیری میڈیا اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے کشمیریوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ پرامن مظاہرین پر بھارتی افواج نے پیلٹ گن سے حملے کیے۔ افسوس ہے کہ بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں ایسی کارروائیاں بلا خوف وخطر جاری ہیں۔ عالمی برادری کو انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کیا جا رہا ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جرم ہے۔ سلامتی کونسل مشرقی تیمور میں اپنا کردار ادا کر چکی ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کیلئے اقوام متحدہ یہاں بھی کردار ادا کرے۔ پاکستان ہمیشہ سے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا خواہاں رہا ہے۔ بھارت سب سے پہلے کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرے۔ کشمیر کا مسئلہ کشمیر کے عوام کی خواہش اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت میں اسلاموفوبیا ریاستی پالیسی بن گئی ہے۔ بی جے پی انتہا پسند آر ایس ایس کے نظریے پر قائم ہے۔ گاندھی اور نہرو کا نظریہ آر ایس ایس کے نظریے سے بدل چکا ہے۔ اسی نظریے نے بابری مسجد کو شہید کیا۔ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ 2002ء میں گجرات میں نریندر مودی کی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ 2007ء میں سمجھوتا ایکسپریس میں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ آسام میں 20 لاکھ مسلمان اپنی شہریت سے محروم کر دیے گئے۔ مسلمانوں کا بائیکاٹ کرکے ان کا کاروبار تباہ کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری ان جرائم کی تحقیقات کرے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت اپنے غیر قانونی اقدام سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ فاشسٹ بھارتی حکومت کی جانب سے اشتعال انگیزی کی گئی تو پاکستان اپنے دفاع کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گا۔ کشمیر کو صاف طور پر نیوکیلئر فلیش پوائنٹ کہا جا رہا ہے۔ اگر بھارت کی فسطائی حکومت نے پاکستان کیخلاف جارحیت کی تو قوم بھرپور جواب دیگی۔ پاکستان ورکنگ باؤنڈری اور ایل او سی پر بھارتی جارحیت کے باوجود ضبط کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل خطے اور دنیا کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان فلسطین میں دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قیام جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، اس مسئلے کا حل ہے۔ پاکستان فلسطین کے مسئلے پر فلسطینوں کی حمایت کرتا رہے گا۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان خطے میں امن چاہتا ہے کیونکہ تنازعات بڑھنے کے بعد شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ نئی مخالف قوتوں کے درمیان اسلحہ کی دوڑ جاری ہے۔ شہریوں کو حقوق دینے کیلئے امن کی ضرورت ہے۔ دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ہمسائیوں کیساتھ اچھے تعلقات اور مسائل کا حل بات چیت ہے۔ اسی صورت میں ہم عوام سے کئے گئے اپنے وعدوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ فوجی قبضے اور توسیع پسندانہ رویے سے دنیا میں امن داؤ پر لگا ہے۔
وبائی صورتحال بارے پاکستان کی کامیاب پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ناصرف کورونا وائرس سے نمٹنے میں کامیاب ہوئے بلکہ معیشت کو بھی استحکام دیا۔ ترقی پذیر ملکوں کو قرضوں کی ادائیگی میں مہلت سے ریلیف ملا۔ پاکستان میں ہم نے سخت لاک ڈاؤن نہیں بلکہ سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی۔ آج پاکستان کورونا پر قابو پانے والے ممالک کی فہرست میں کھڑا ہے۔ ہم نے ناصرف وبا پر قابو پایا معیشت کو بھی مضبوط کیا۔ 8 ارب ڈالر سے صحت کی سہولیات غریب عوام تک پہنچائیں۔ ہم نے فوری طور پر زراعت اور تعمیراتی صنعت کو کھولا۔ حکومتی پالیسیوں کا مقصد شہریوں کے معیار زندگی میں اضافہ کرنا ہے۔ جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے لوگوں کی بہتری کیلئے کوششیں کیں۔ ہم نے حضرت محمد ﷺ کی ریاست مدینہ کے تصور پر نئے پاکستان کا ماڈل تشکیل دیا ہے۔
عمران خان نے عالمی برادری کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ امیر ممالک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو تحفظ دے کر انصاف اور انسانی حقوق کی بات نہیں کر سکتے۔ جتنی امداد ترقی پذیر ملکوں کو ملتی ہے، اس سے کئی گنا زیادہ رقم باہر جاتی ہے۔ جنرل اسمبلی کو غیر قانونی رقوم کی منتقلی کیلئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے مناسب فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔ ترقی پذیر ملکوں کی دولت بیرون ملک منتقل کی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اس منی لانڈرنگ کو روکنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔ امیر ملکوں میں اس مجرمانہ سرگرمی روکنے کی ضرورت ہے۔ ترقی پذیر ممالک نے رقوم کی منتقلی ان کی غربت کا باعث بن رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے آنے والی نسلوں کو خطرات ہیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا عالمی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ ہماری حکومت نے 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا۔ پیرس معاہدے پر عملدرآمد انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار نہیں لیکن اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔