ممبئی (جیوڈیسک) کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے متنازعہ بھارتی فیصلے کے ایک ہفتے بعد، اب تک عالمی ردِ عمل کیا رہا اور کس ملک نے کیا کہا۔ پڑھیے اس رپورٹ میں۔
کیا روس نے بھارتی اقدام کی حمایت کی؟ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک روس نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی سے متعلق نئی دہلی حکومت کے فیصلے کی تائید کر دی، جسے بھارت کی ایک اہم سفارتی کامیابی قرار دیا گیا۔
اس ضمن میں بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی سمیت قریب سبھی نمایاں بھارتی میڈیا ہاؤسز نے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان سے منسوب کے ایک بیان کا حوالہ دیا۔
تاہم ایک پاکستانی اخبار نے دعویٰ کیا کہ روسی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ روسی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے جمعے کے روز اپنی پریس کانفرنس میں ماسکو ریجن کے ایک وفد کے تجارت کے سلسلے میں بھارت کے دورے کا ذکر تو کیا تھا لیکن اس بریفنگ میں کشمیر کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
روسی دفتر خارجہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے انتقال پر افسوس کے علاوہ بھارت سے متعلق کوئی بیان موجود نہیں۔ تو بھارتی میڈیا روسی وزارت خارجہ کے کس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اسے نئی دہلی کی سفارتی کامیابی قرار دے رہا ہے؟
روسی دفتر خارجہ کے پریس ڈیپارٹمنٹ نے نیوز ڈاٹ آر یو سے گفتگو کرتے ہوئے کشمیر کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا تھا۔ یہ رپورٹ جمعہ نو اگست کے روز شائع کی گئی تھی۔
اس ویب سائٹ کے مطابق بیان میں کہا گیا، ’’ہم سمجھتے ہیں ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی اور اس کی دو یونین علاقوں میں تقسیم بھارتی آئین سے مطابقت رکھتی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ فریقین اس فیصلے کے بعد علاقے کی صورت حال کو مزید سنگین نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ماسکو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بحالی کا حامی ہے۔ بیان میں کہا گیا، ’’ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی اختلافات سیاسی اور سفارتی طریقوں سے 1972 کے شملہ معاہدے اور سن 1999 کے لاہور معاہدے کے مطابق دوطرفہ طور پر حل کیے جائیں گے۔‘‘
ماسکو میں پاکستانی سفیر خلیل اللہ قاضی نے بھی نیوز ڈاٹ آر یو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد حکومت پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی روسی پیش کش پر مثبت انداز میں غور کر رہی ہے۔ چین کا ردِ عمل
کشمیر کے مسئلے پر چین کا تعاون حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں ہی چین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ چین کا لداخ کے معاملے پر بھارت کے ساتھ تنازعہ پایا جاتا ہے۔ حالیہ بھارتی فیصلے کے ردِ عمل میں میں لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے بھارت کا ایک یونین علاقہ بنانے کے فیصلے پر چینی وزارت خارجہ نے چھ اگست کے روز ہی اپنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چن ینگ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، ’’بھارت اپنے مقامی قوانین میں یکطرفہ تبدیلی کر کے چین کی علاقائی خود مختاری کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے جو ناقابل قبول ہے۔‘‘ جواب میں بھارتی وزارت خارجہ نے چینی بیان کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بھارتی اقدامات کے بعد چین کا ہنگامی دورہ کیا اور جمعے کے روز اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کی۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے قریشی سے ملاقات کے بعد کہا کہ بیجنگ حکومت کی رائے میں کشمیر سے متعلق کوئی بھی یکطرفہ قدم کشمیر میں حالات کو مزید پیچیدہ بنا دے گا اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کشمیر کی صورت حال کو سنجیدہ اور باعث تشویش قرار دیتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اور بھارت کو یہ مسئلہ پر امن طریقے سے، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں، اور دونوں ممالک کے مابین ماضی میں طے پانے والے معاہدوں کی روشنی میں حل کرنا چاہیے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے ہفتے کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دورہ چین کے حوالے سے بتایا کہ چین نے کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید کی ہے۔ قریشی کے مطابق اسلام آباد مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے کر جانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس ضمن میں بیجنگ سے مدد کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ پاکستان کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سبھرا منیم جے شنکر بھی بیجنگ کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ پیر بارہ اگست کے روز انہوں نے اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کی۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی تیسرے ملک کی ثالثی کے امکان کو مسترد کرتا ہے اس لیے بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ چین کے حوالے سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ وہ چینی حکام کے ساتھ دونوں ممالک کے دو ’طرفہ تعلقات کی مضبوطی‘ کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ کشمیر پر ’جلد بازی میں فیصلہ‘ نہ کیا جائے، ایران
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی سے اتوار گیارہ اگست کے روز ٹیلی فون پر بات کی۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور اسے سفارتی طریقوں ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ صدر روحانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران سمجھتا ہے کہ ‘کشمیر کے متنازعہ علاقے کے شہریوں کو قانونی حقوق اور پر امن زندگی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔’ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد تہران کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم قریب ایک ہفتے کے بعد دس اگست بروز ہفتہ ایرانی فوج کے سربراہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ کشمیر کے موضوع پر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے معاملے پر ’جلد بازی میں فیصلہ‘ نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل باقری نے کہا، ’’فریقین سے توقع ہے کہ وہ علاقے کے عوام کی رضامندی کے بغیر کشمیر کی قسمت سے متعلق جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے سے اجتناب کریں گے۔‘‘
بھارت میں متحدہ عرب امارات کے سفیر ڈاکٹر احمد البنا نے نئی دہلی کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی حکومت کے اس انتظامی فیصلے کا مقصد ’علاقائی تفاوت میں کمی لانا اور کارکردگی بہتر بنانا‘ ہے۔
آٹھ اگست کے روز متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور بن محمد قرقاش نے اپنے ایک بیان میں ’خطے میں امن، سکیورٹی اور استحکام کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت‘ پر زور دیا۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ بھارت اور پاکستان کے رہنما موجودہ تنازعے کو ’روابط، تعمیری مذاکرات، کشیدگی اور تصادم سے بچتے ہوئے‘ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یورپی یونین نے کیا کہا؟
یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار فیدیریکا موگیرینی نے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں پاکستانی اور بھارتی وزارئے خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق موگیرینی نے شاہ محمود قریشی اور سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ گفتگو میں کشمیر اور خطے میں کشیدگی سے بچنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی سطح پر مذاکرات کا انعقاد اس وقت کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
یورپی یونین کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ’دوطرفہ سیاسی حل‘ کی حمایت کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے خطے میں طویل عرصے جاری ’عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال کو ختم کرنے کا یہی واحد راستہ‘ ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کی خارجہ امور کی وزارتوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کشمیر کی تازہ صورت حال کے حوالے سے کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ تاہم ان دونوں ممالک نے سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے انتقال پر تعزیتی پیغامات شائع کیے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
جرمن ردِ عمل
برلن میں جرمن دفتر خارجہ کی ترجمان ماریا آیڈیبار نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں ہو گا۔
دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان کا کہنا تھا، ”ہم کشیدہ حالات اور جموں و کشمیر میں سامنے آنے والی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہم نے بھارتی حکومت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی کے فیصلے کے بعد علاقے کی صورت حال کے تناظر میں (اپنے شہریوں کے لیے) سفر اور سکیورٹی سے متعلق ہدایات جاری کی ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ بھارتی حکومت متاثرہ ریاست کے لیے آئندہ جو بھی منصوبہ رکھتی ہے، اس میں علاقے کے لوگوں کے آئینی اور شہری حقوق کو پیش نظر رکھے۔ ہم بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں وہ اپنے آئندہ لائحہ عمل، یا وہ علاقے کے لیے اپنا جو منصوبہ رکھتی ہے، کے بارے میں متاثرہ عوام سے مذاکرات کرے اور انہیں آگاہ کریں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ صورت حال پر سکون رہے گی، مذاکرات کیے جائیں گے اور حالات مزید کشیدہ نہیں ہوں گے۔‘‘
اقوام متحدہ نے کیا کہا؟
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ عالمی ادارے کے فوجی مبصرین کے گروپ نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب عسکری سرگرمیوں میں اضافے کی اطلاع دی ہے۔
امریکی ردِ عمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات میں کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیش کش کی تھی، جسے بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔ گزشتہ ہفتے کے واقعات کے بعد امریکا نے بھی پاکستان اور بھارت سے اپیل کی تھی کہ وہ لائن آف کنٹرول پر امن قائم رکھیں۔ واشنگٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کی خاتون ترجمان مورگن اوٹاگس نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی صورت حال کے بارے میں دیے گئے اپنے بیان میں کہا، ”ہمیں گرفتاریوں کی اطلاعات پر تشویش ہے اور ہم درخواست کرتے ہیں کہ شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔‘‘
ترک صدارتی دفتر کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کشمیر سے متعلق بھارتی اعلان کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے انہیں تازہ صورت حال اور پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا۔
ترک نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی ورلڈ کے مطابق صدر ایردوآن نے صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی نے اتوار چار اگست کے روز بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور وہاں مزید بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تنازعہ کشمیر کو پر امن طریقے اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
تاہم بھارت کی جانب سے اس کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے فوری بعد اس تنظیم نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے اپنی ایک ٹویٹ میں بتایا تھا کہ اسلامی تعاون کی تنظیم کے جموں و کشمیر سے متعلق رابطہ گروپ کا اجلاس چھ اگست کے روز جدہ میں منعقد ہو رہا ہے، جس میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی شرکت کریں گے۔