تحریر: محمد شاہد محمود تحریک آزادی جموں کشمیر کا لاہور سے شروع ہونے والا کشمیر کارواں اگلے روز سہہ پہر تین بجے کمیٹی چوک راولپنڈی پہنچا جہاں ہزاروں افراد کی طرف سے کارواں کا بھر پور استقبال کیا گیا۔حافظ سعید کا اعلان، کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیریوں سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ، کشمیری مانگیں آزادی، پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ کے نعرے لگائے گئے۔کارواں کے شرکاء نے نماز ظہر ٹی چوک روات کے قریب ادا کی۔اس موقع پر فلاح انسانیت فائونڈیشن کی جانب سے تمام شرکاء کو کھانا کھلایا گیاجس کے بعد کارواں کے شرکاء وہاں سے روانہ ہوئے۔اس موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے تھے۔
جماعة الدعوة کے تین ہزار سے زائد رضاکاروں نے سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیئے۔کلوز سرکٹ سی سی ٹی وی کیمروں والی گاڑیاں کارواں کے شرکاء کے ارد گرد موجود رہیں۔کارواں کی قیادت امیر جماعة الدعوة حافظ محمد سعید،سید صلاح الدین ،لیاقت بلوچ،حافظ عبدالرحمان مکی،مولانا فضل الر حمان خلیل،پیر سید ہارون گیلانی،سید ضیاء اللہ شاہ بخاری،مولانا امیر حمزہ،قاری محمد یعقوب شیخ،عبداللہ گل،حافظ عبدالغفار روپڑی،مولانا سیف اللہ خالدو دیگر نے کی۔بصارت اور سماعت سے محروم افراد نے بھی کشمیر کارواں میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کے موبائل میڈیکل یونٹ سمیت60ایمبولینس گاڑیاں بھی کارواں کے ہمراہ تھیں۔کمیٹی چوک پہنچنے پر کارواں کے شرکاء پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
تحریک آزادی جموں کشمیر کا کشمیر کارواں کئی کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا،ہزاروں کی تعداد میں بسوں،ویگنوں،کاروں پر سوار لاکھوں افراد جب کمیٹی پہنچے تو زبردست جذباتی ماحول دیکھنے میں آیا۔تاحد نگاہ سر ہی سر نظر آ رہے تھے۔شرکاء کی اکثریت نے پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے۔کمیٹی چوک راولپنڈی میں قائدین نے مختصرخطابات کئے۔کشمیر کارواں کی سوشل میڈیا پر بھر پور کوریج کے لئے لاہور سے اسلام آباد تک کارواں کو فیس بک اور ٹویٹر پر براہ راست نشر کیا گیا۔مذہبی، سیاسی و کشمیری جماعتوں کے قائدین، متحدہ جہاد کونسل ا ور حریت کانفرنس کے رہنمائوںنے تحریک آزادی جموں کشمیر کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اپنی آٹھ لاکھ فوج کشمیر سے نکالے اور سید علی گیلانی کے چارنکاتی فارمولہ کو تسلیم کرے۔
Kashmir Issue
اگر ہندوستان کشمیر میں ظلم و ستم بند نہیں کرتا تو ہم اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ مل کر کنٹرول لائن کو پائوں تلے روندیں گے اور آزادی کشمیر کیلئے جو کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے۔ ہم سیز فائر لائن کو کنٹرول لائن تسلیم نہیں کرتے۔ ہر کشمیری کو پاکستان آنے اور پاکستان میں بسنے والے کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر جانے کا حق حاصل ہے۔محض یوم سیاہ کااعلان کافی نہیں۔ انڈیا سے ہر قسم کے تعلقات پر سیاہ لائن کھینچ وی جائے۔ہمیں آلو پیازکی تجارت نہیں کشمیریوں کے حقوق چاہئیں۔ بھارتی فلموں پر پابندی لگائی جائے۔ حکمران اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔ تجارت، ثقات اور سفارت کو مسئلہ کشمیر سے جوڑیں۔بھارت غیر قانونی طور پر کشمیر میں اپنی فوج داخل کر سکتا ہے تو پاکستان کو بھی ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔
مشرقی تیمور،سوڈان میں ریفرنڈم ہو سکتا ہے توکشمیریوں کو حق خود ارادیت کیوں نہیں دیا جا رہا۔مسئلہ کشمیر یکطرفہ دوستی اورتجارت سے نہیں جہاد سے حل ہو گا۔ چین کے کشمیریوں کیلئے جرا تمندانہ آواز بلند کرنے پر پوری قوم ان کی شکر گزار ہے۔لاہور سے اسلام آباد تک کشمیرکارواں کے اختتام پر کشمیر ہائی وے پر ہونے والے بڑے جلسہ عام سے امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمدسعید،سینیٹر سراج الحق، صاحبزادہ ابو الخیر زبیر، شیخ رشید احمد،سید صلاح الدین،پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، غلام محمدصفی،پیر سید ہارون علی گیلانی،جنرل (ر) امجد شعیب، ، مولانا فضل الرحمن خلیل، ملک رشید احمد خاں،معروف قانون دان احمد رضا قصوری، عبداللہ گل، مولانا امیر حمزہ، شیخ جمیل الرحمان،مولانا عبدالعزیز علوی، پیر سید محفوظ مشہدی، حافظ عبدالغفار روپڑی،سید ضیائ اللہ شاہ بخاری،قاری یعقوب شیخ، اجمل خاں بلوچ،پیر حبیب عرفانی ودیگر نے خطاب کیا۔
اس موقع پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں اور بھارت سرکار کیخلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا کہکارواں کے شرکاء میں جو جوش و جذبہ لاہور سے نکلتے ہوئے تھا وہی آج اسلام آباد میں ہے۔ حکمران اپنے آپ کو بدلے ہیں یہاں آنے والے کچھ پیغام دینے آئے ہیں۔ یہ صرف باتیں کرنیو الے نہیں میدانوں میں اللہ کے حکم پر قربانیاں پیش کرنے والے ہیں۔ چند دن پہلے سیدہ آسیہ اندرابی سے ٹیلیفون پر بات ہوئی تو پندرہ منٹ کی گفتگو کے دوران ان کی آواز بھرائی رہی۔ انہوںنے کہاکہ کشمیری سڑکوں پر ہیں پاکستانی کیا کر رہے ہیں۔ اس وقت ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان میں بھی وہی ماحول پیدا کریں گے جو آج کشمیر میں ہے۔ کشمیر میں خون بہہ رہا ہو تو ہم آرام سے نہیں بیٹھ سکتے جب تک اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کو وہ جذبات پیش نہ کردیں کہ جن کے ساتھ ان کا دل ٹھنڈا کر دے۔ دلوں کو اطمینان اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔
فوری طور پر یہ فیصلہ کیا اور تین دن کے اندر یہ قافلہ تیار ہوا۔ آج ہر شخص کے دل میں کشمیریوں کی مددکا جذبہ موجود ہے۔ ہر دل انڈیا کی نفرت میں دہک رہا ہے کوئی اس کا ظلم برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ سخت گرمی حبس کے باوجود کارواں کے شرکائ چلے لیکن آخر میں بھی وہی جذبہ موجود ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہم کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں آپ کا خون گرے گاوہاں ہمارا خون گرے گا یہ اسلام کا خون ہے۔انڈیا کے اڈوں پر امریکی ڈرون موجود ہیں۔ پاکستان کے خلاف معاہدے کیوں ہو رہے ہیں ؟ اس کے پیچھے بہت بڑی سازش ہے۔ ہم کشمیری بھائیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں صرف زبانی دعووں کے ساتھ نہیں آپ نے جوجہاد کا نعرہ لگایا ہمارا بھی نعرہ یہی ہے تو ان شاء اللہ یہ قافلے کا پہلا مرحلہ ہے۔ ان شاء اللہ اگلے مرحلہ میں یہ قافلہ چکوٹھی، مظفر آباد جائے گا۔ وزیر اعظم نواز شریف فوری فیصلے کریں۔ اب دیر کا وقت نہیں۔ آپ نے یوم سیاہ کا اعلان کیا یہ تو رات بارہ بجے ختم ہو جائے گا۔
Kashmir Caravan
یہ وہ چیز نہیں ہے اگر آپ نے یوم سیاہ کی بات کی تو شکر ہے کہ ان کی زبان سے کچھ تو نکلا۔ ہمیں یقین ہے کہ آپریشن کے بعد یہ دل انڈیا کی محبت میں نہیں دھڑکے گا۔ آپریشن سے پہلے نواز شریف ساڑھیاں بھیجتے تھے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اب تبدیلی آچکی ہے۔ اگر آپ نے یوم سیاہ کا اعلان کیا تو یہ تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کشمیریوں پر سے ظلم ختم نہیں ہو تا تو انڈین آرمی کے درندے جو گولیاں برسا رہے ہیں تو اس وقت تک آپ انڈیا سے ہر قسم کے تعلقات پر سیاہ لائن کھینچ دو۔ آلو پیازکی تجارت نہیں ہمیں کشمیریوں کے حقوق چاہئیں۔ یہ سب کچھ بند کرو، ان کی فلموں پر پابندی لگائو۔ اگر یوم سیاہ صرف اشک شوئی کیلئے نہیں تو صاف کہہ دو کہ اگر بھارت علی گیلانی کا چار نکاتی فارمولہ قبول نہیں کرتا تو اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرو۔ کون ان کے آنسو پونچھے گا۔ صرف سیاسی نعرے مت لگائو۔ پہلے بھی کشمیر کیلئے ایسے بہت نعرے لگائے گئے۔ اب حد ہو چکی یہ کارواں آپ سے سیدھی بات کرنے آیا ہے۔ ختم کرو یہ معاہدے۔ انہوںنے کہاکہ پہلے امریکہ کہتا تھا کہ کشمیر میں قتل و غارت گری انڈیا کا اندرونی مسئلہ ہے۔
آج بھارت کی دوستی میں امریکہ اس قدر اندھا ہوگیا کہ اب وہ کہتا ہے کہ یہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے۔کشمیر حق رکھتا ہے کہ آپ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کریں۔کہاجاتا ہے کہ ہم پارلیمنٹ میں کشمیریوں پر ظلم کی مذمت کریں گے۔ مذمت تو یہ ہوتی ہے کہ انڈیا اسے محسوس کرے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ کے ممبران سے گزارش ہے کہ صرف مذمت سے کچھ نہیں ہو گا۔ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔
تجارت، ثقات اور سفارت کو مسئلہ کشمیر سے جوڑیں۔آج انڈیا کہتا ہے کہ ہم پاکستانی کشمیر پر بات چیت کریں گے۔ ہم حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس سے آپ مطمئن ہو جاتے ہیں۔ آپ کوبنیادی فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو یہ قافلہ کنٹرول لائن کو روند ڈالے گا۔ ہم کنٹرول لائن کونہیںمانتے۔ جب مشرقی پاکستان کا سقوط ہوا تو زبردستی سیز فائرلائن کو کنٹرول لائن میں تبدیل کیا گیا اگراسلام آباد سنجیدہ ہے تو ان مجبوری کے معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں، نہ تو یہ بارڈر لائن اور نہ ہی کنٹرول لائن ہے۔ ہر کشمیری کو پاکستان آنے اور لاکھوں پاکستانی کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر جانے کا حق حاصل ہے۔ یہ ان کا قانونی حق ہے کہ وہ کنٹرول لائن کو روندیں اور کشمیر کی آزادی کیلئے قربانیاں و شہادتیں پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کی آزادی میں یہ جیالے اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ مودی کشمیر چھوڑ دیں۔ فوج نکالے اور علی گیلانی کے چار نکاتی فیصلہ قبول کرو۔ فوج مزید بھجوائے گا تو پھر سن لو!تمہیں بہت آگے تک بھگتنا پڑے گا۔ ان شاء اللہ فیصلہ کن مرحلے موجود ہیں۔ اب حکمران اور مودی سرکار سمجھ لے۔ امریکہ اور یواین سمجھ لیں ہر صورت میں کشمیر کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ اگر نہیں کرنا تو ہم سب مل کر یہ کنٹرول لائن بھی روندیں گے اور کشمیر کی آزادی کیلئے جو کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے۔