برسلز (اصل میڈیا ڈیسک) کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری تنازعہ، ہر ہفتے وہاں پیش آنے والے واقعات اور خطرناک تناؤ مستقبل میں تشدد میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بات برسلز میں قائم کرائسس گروپ کی طرف سے کہی گئی ہے۔
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائسس گروپ ایک غیر جانبدار اور خود مختار تنظیم ہے جو دنیا کو جنگوں سے بچانے اور سیاست کو بہتر کرنے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ ایک زیادہ پر امن دنیا تعمیر ہو سکے۔
اس گروپ کی واچ لسٹ 2022ء میں ‘کیپنگ کشمیر آن دی راڈار‘ کے عنوان سے شامل حصے میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں سے اوجھل بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جاری صورتحال تشویش کا باعث ہے، جہاں نئی دہلی حکومت ایک ایسی بغاوت کچلنے کی کوشش میں ہے جسے پاکستان کی حمایت تو حاصل ہے مگر جو زیادہ تر مقامی علیحدگی پسندوں کی طرف سے جاری ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی اس رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک چینل بات چیت کے ذریعے کنٹرول لائن پر 2003ء میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد پر اتفاق کو ایک حوصلہ افزا پیش رفت تو قرار دیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہاں معصوم انسانوں کی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ رُکا ہے، مگر ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کوئی بھی بڑا عسکری حملہ جوہری طاقت کی حامل دونوں ہمسایہ ریاستوں میں تناؤ بڑھنے کا سبب بنے گا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسندوں کی طرف سے قریب ہر ہفتے ہی تشدد کا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آتا ہے اور مختلف علامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنازعے میں اضافے کا امکان ہے۔
پاکستان کے ایک معروف سکیورٹی اور سیاسی تجزیہ کار طلعت مسعود بھی ان خدشات کو حقیقت پر مبنی سمجھتے ہیں تاہم وہ قائل ہیں کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھنے یا جنگ کی طرف بڑھنے سے کشمیر کے حوالے سے حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں: ”1965ء کی جنگ کشمیر کے بارے میں ہی تھی۔ اس سے فائدہ تو نہیں ہوا بلکہ دونوں جانب نقصان ہوا۔ فوجی اور سویلین مارے گئے۔ لیکن کشمیریوں کو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ضروری ہے کہ معاملات کو پر امن طریقے سے سیاسی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ مگر بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس معاملے پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔‘‘
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی طرف سے کشمیر کی نیم خودمختار آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد بھارت نے کشمیر کی پوری سیاسی قیادت کو ہی حراست میں لے لیا تھا جن میں بھارتی زیر انتظام کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل تھے اور یہ کئی ماہ تک گرفتار رہے۔
بھارتی حکومت کے اس اقدام کے دو برس سے بھی زائد عرصہ گزرنے کے بعد کشمیری عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے اور 2019ء کے بعد سے بھارتی حکومت کے اقدامات نے کشمیری عوام میں بغاوت کے جذبات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں اس کی وجہ سیاسی پابندیوں اور کسی بھی طرح کی مخالفت کو سختی سے کچلنے کی بھارتی پالیسی کے ساتھ ساتھ بھارت کے دیگر حصوں کے لوگوں کو جموں و کشمیر میں زمین خریدنے، وہاں رہائشی حقوق اور حکومتی ملازمتیں حاصل کرنے کی اجازت دی جانا بھی ہے جو اس خطے میں پہلی بار ہوا ہے۔ کرائسس گروپ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں نے ردعمل میں باہر سے آنے والوں کو نشانہ بنانے میں اضافہ کر دیا ہے۔
بھارتی حکومت نے مقامی انتظامیہ کے زیادہ تر اہم عہدوں سے کشمیری ملازمین کو ہٹا کر باہر سے آئے لوگوں کو تعینات کر دیا ہے۔
رپورٹ نے بھارتی حکومت مخالف جذبات میں اضافے کی ایک اہم وجہ وہاں آزادی اظہار پر لگائی گئی سخت پابندیوں کو بھی قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائس واچ کی جنوبی ایشیا کے لیے ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا بھی یہی کہنا ہے کہ کرائسس گروپ نے کشمیر میں تشدد کے اضافے کے بارے میں جائز خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے گنگولی کا کہنا تھا، ”بھارتی حکومت کے بین الاقوامی پارٹنرز اور دوستوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مسلسل الزامات پر توجہ دینی چاہیے اور انہیں ان کی آزادانہ تحقیقات اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔‘‘
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی طرف سے بھارتی زیر انتظام کشمیر میں صورتحال کی بہتری اور پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی تنازعے سے بچاؤ کے لیے یورپی یونین کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بھارت کی حوصلہ افزائی کرے کہ وہ جلد از جلد کشمیر میں مقامی انتخابات کرائے اور جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو بحال کرے۔
مزید یہ کہ یورپی یونین فی الفور نئی دہلی کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرے کہ وہ کشمیری سیاسی رہنماؤں کو کام کرنے دے۔ ساتھ ہی نئی دہلی حکومت کو علیحدگی پسند رہنماؤں کے ساتھ اپنے رویے میں نرمی اختیار کرنی چاہیے جن میں سے کئی کشمیری نوجوانوں کے آئیڈیل ہیں۔ ان رہنماؤں کی اکثریت جیل میں بند ہونے کے سبب بہت سے نوجوان اپنے سیاسی عزائم کے حصول کے لیے کوئی پر امن اور جمہوری راستہ نہ پانے کے سبب عسکریت پسندی کے حامی بن جاتے ہیں اور کئی تو باقاعدہ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں۔
تجزیہ کار طلعت مسعود تاہم اس بارے میں شکوک کا شکار ہیں کہ بھارت اس رپورٹ کے باوجود کسی طرح کی لچک دکھائے گا اور کشمیر میں اپنی پالیسیاں تبدیل کرے گا، ”فائدہ تو اسی صورت میں ہو گا جب اس رپورٹ پر عمل ہو اور اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔ ایسی صورت میں نہ صرف کشمیری عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی بلکہ کشمیری رہنماؤں کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بھی بہتری ہو گی۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ اس وقت بھارت اپنی پالیسیوں میں کوئی لچک دکھائے گا۔‘‘
بھارتی زیر انتظام کشمیر کی صورتحال کے تناظر میں کرائسس گروپ کی طرف سے یورپی یونین اور اس کی رکن ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان پر دباؤ ڈالیں کہ وہ باہمی رسمی رشتوں کا اور احترام اور پر امن تعلقات کو بحال کریں اور اس کے لیے باہمی رشتوں کو از سر نو جوڑیں۔ ساتھ ہی کشمیری سیاسی رہنماؤں کو بات چیت میں شامل ہیں۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یورپی یونین بھارتی حکومت کو کشمیر میں مذہبی حساسیت کو زیادہ عزت دینے کا بھی کہے۔ مثال کے طور پر مارے جانے والے عسکریت پسندوں یا ان کے حامیوں کی لاشوں کو گمنام قبرستانوں میں دفن کرنے کی بجائے ان کے لواحقین کو فراہم کی جائیں۔ ساتھ ہی سری نگر کی تاریخی مسجد میں جمعے کی نماز کی ادائیگی پر لگی پابندی بھی ختم کی جائے کیونکہ کشمیر میں جاری موجودہ پالیسیوں سے صرف یہی احساس اجاگر ہوتا ہے کہ ریاست مسلمانوں کے خلاف ہے اور اس سے عسکریت پسندی کو مدد ملتی ہے۔