تحریر: حافظ شاہد پرویز دنیا کا کوئی بھی مذہب معاشرہ تنظیم سیاسی جماعت یا فرد انسانیت کے قتل اور انسانیت پر ظلم ڈھانے کی سوچ کی حمایت نہیں کرتا لیکن اکثر اوقات خود کو دوسرے انسانوں پر بڑائی دینے کیلئے اور دوسرے پر رعب اور دبدبا جمانے کیلئے قتل و غارت بھی کی جاتی ہے اور انسانیت کو اذیت ناک اسباق بھی سکھانے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ حضرت آدم کے وقت سے آج تک انسانیت کے قتل عام کا سلسل نہیں تھما حکومتیں سنبھالنے کا وقت ہو تو یا پھر اقتدار کی ہوس دوسروں کے علاقے پر قبضہ کرنے کی کوششیں ہوں تو یا پھر خود کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت منوانے کا لالچ ہمیشہ پسے ہوئے طبقات ،غریب اور کمزور افرادپر ظلم ڈھائے گئے ، تاہم ستر سال سے زائد کے مظالم کی داستان کشمیر کے بغیر دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوتی دیکھائی نہیں دے گی۔
اسلامی جنگیں ہوں یا پھر ہلاکوں خان، چنگیز خان، شیر شاہ سوری اور دیگر بڑے حکمرانوں کی باتیں کسی نے بھی خود کو ایک چھوٹے سے حصے پر قبضہ جمانے کیلئے ایک اتنی لمبی مظالم کی داستانیں ڈھائیں نہ جنگیں ہوئیں تو دوسری جانب مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کا صبر و حوصلہ اور انڈین حکمرانوں کے ساتھ مسلسل آنکھیں دیکھانے کا سلسلہ اور خود کو آزادی کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہنے کا تسلسل کسی بھی مضبوط ترین قوم ہونے کا بڑا ثبوت ہے۔ اپنی تین نسلوں سے آزادی کی جدوجہد اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے حقوق کے حصول کیلئے پرتشدد رویوں قتل عام اور بھارتی افواج کے سامنے کھڑئے رہنا بے شک قابل دید ہے۔
USA
لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا عالم پر اپنی قوت کا غلبہ دیکھانے کی دعویدار امریکہ دنیا بھر میں اپنے فیصلوں کو منوانے کے حوالہ سے انتہائی معروف اور قابل عمل فورم اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں انسانیت کے حقوق کا علم بلند کرنے والی دیگر بڑی عالمی طاقتوں کی نظر کشمیریوں پر کیوں پر نہیں پڑیں اور کشمیر کی آزادی کیلئے بھارت کے سامنے کسی بھی دنیا کے وڈیرے بادشاہ اور عالمی طاقتیں ہونے کے دعویداروں نے بھارتیوں کو یہ بات منوانے پر کیوں زور نہیں دیا کہ کشمیری پاکستان کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں اور وہ اپنی جان مال اور عزت کی حفاظت پاکستان کے ساتھ رہ کر بہتر سمجھتے ہیں تو بھارت جیسے خود غرض اور انسانیت دشمن ملک کے سامنے کھڑے ہوکر کشمیریوں کو ان کے حقوق کی آزادی دلوانا کیا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور دیگر عالمی ثالثی اداروں کی ذمہ داری نہیں۔ اگر ہے تو اس پر علمدرآمد کروانے کیلئے ستر برس کی تاخیر کیوں پاکستانی عوام اور پاکستان کی حکومت کی جانب سے کشمیری قوم کے ساتھ کھڑے رہنے اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے دنیا بھرمیں آواز بلند کرنے کا سلسلہ بے شک قابل دید ہے۔
لیکن اس وقت تک کشمیریوں کے حقوق کی آزادی اور ان کو خود مختار زندگی گزارنے کا موقع ملنا مشکل ہے کہ جب بڑی طاقتیں متحد اور یکجہا ہوکر ان کے حقوق کیلئے انڈیا کے منہ پر طمانچہ نہ لگائیں۔ دنیا کے بیشتر علاقوں میں آزادی کے حقوق کیلئے بڑی بڑی تحریکیں چلائی گئیں لیکن مقبوضہ کشمیر جتنی لمبی اور لاشوں کے انبار لگا کر چلائی جانے والی تحریک کی مثال شائد ہی ملنا مشکل ہوگا۔ بہرحال پاکستان نے اپنے حصے کا کردار عالمی طاقتوں کو بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کی آگاہی فراہم کرکے بھرپور کیا جبکہ وزیراعظم کی جانب سے کشمیریوں کو مرحم پٹی کرنے ادویات کی فراہمی کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی بھی قابل تحسین ہے لیکن جب تک عالمی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی بڑی دعویدار طاقتیں اس مسلئے پر متحد نہیں ہونگی اس وقت تک مسلہ کشمیر کا حل مشکل ترین نظر آرہا ہے لیکن کشمیریوں کا جذبہ حب الوطنی اور ان کی قربانیاں کسی صورت رائیگاں نہیں جائینگی۔