بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کی طرف سے مسئلہ کشمیرکے حل کیلئے آئرش اور سکاٹ لینڈ طرز کا عندیہ دینے پر ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔اپنے دورہ برطانیہ کے دوران انہیں انڈوبرٹش آل پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں برطانوی ممبران پارلیمنٹ کی جانب سے کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں ،افسپا کے نافذ رہنے اور کشمیری طلبہ کے ساتھ کی گئی کارروائی کے سلسلے میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس موقع پرسلمان خورشیدنے کہاکہ جس طرح برطانیہ کی حکومت نے آئرش اور سکاٹش طرز پر مسائل کو حل کیا اس طرح بھارت ریاست جموں کشمیر اور دوسری ریاستوں میں پیدا شدہ مسائل کو حل کرنے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کررہا ہے۔جموں کشمیر میں بھارت کو نامساعد حالات کا سامنا ہے۔ کشمیر میں درپردہ جنگ شروع کی گئی ہے جس کے لئے پیراملٹری فورس اور فوج کو تعینات کرنا لازمی بن گیا ہے تا کہ عسکریت پسندوں کو قابو کیا جا سکے۔ جب حالات میں بہتری آئے گی توپیرا ملٹری فورس اور فوج کو واپس بھیج دیا جائے گا تاہم اس کے لئے وقت کی ضرورت ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشیداور کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے آئرش طرز پر حل کی بات کر چکے ہیں اور 1998ء میں ہونے والے گڈ فرائیڈے معاہدہ کو تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے ایک بہترین ماڈل قرار دے چکے ہیں۔سب سے پہلے آئرش حل کی بات سابق امریکی صدر بل کلنٹن بھارتی شہریوں سے ایک ویڈیو گفتگو میں کی تھی جس کے بعد ایک بھارت تجزیہ نگار نے کہا تھا کہ کلنٹن نے آئر لینڈ کا مسئلہ حل کرنے کی لئے ”گڈ فرائیڈے ”معاہدہ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اس لئے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ کلنٹن کی اس تجویز کو حریت کانفرنس (ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جس طرح برطانوی حکومت نے آئر لینڈ کے فریڈم فائٹرز کے ساتھ ”گڈ فرائیڈے ” معاہدہ کیا اس طرح مسئلہ کشمیر کو بھی مجاہدین کے ساتھ معاہدے کے تحت حل کیا جاسکتا ہے اور اس کیلئے پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے کوبھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
میر واعظ نے شمالی آئرلینڈمسئلہ کے حل کا بغور جائزہ لینے کیلئے خصوصی طور پر آئر لینڈ کا دورہ بھی کیا تھا جبکہ حریت کانفرنس (گ) مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی، جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یٰسین ملک، دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی اور دیگر کشمیری جماعتوں کے قائدین نے مسئلہ کشمیر کے سلسلہ میں ایسے کسی بھی حل کو مکمل طور پر مسترد کر دیا تھا۔ بل کلنٹن کی تجویز پر جب پوری دنیا میں اس موضوع پر میڈیا میں بحث چھڑی تو شمالی آئرلینڈ کے سیکرٹری آف سٹیٹ پیٹرہین ایم پی کیتھن نے بھی 2007ء میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ دنیا میں جتنے بھی غیر حل شدہ مسائل اور تنازعات موجود ہیں’ وہ ان کے حل کیلئے ہمارے اس تجربہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بہرحال اب ایک بار پھر جب بھارتی وزیر خارجہ نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے آئرش ماڈل کی بات کی ہے تو مختلف آوازیں سننے میں آرہی ہیں لیکن ہم صاف طور پر کہتے ہیں کہ آئرش اور سکاٹش ماڈل یا چار نکاتی فارمولوں جیسی جس قدر مرضی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی رہیں’ کشمیر ی قو م کسی دھوکہ میں نہیں آئے گی۔ مسئلہ کشمیر اور آئرلینڈمیں مماثلتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ یہ دونوں برطانیہ کے پیدا کردہ ہیں۔ دونوں مقامات پر علیحدگی کی تحریکیں چلائی گئیں۔شمالی آئرلینڈ پر برطانیہ اور آئرلینڈ دونوں حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اسی طرح مقبوضہ کشمیر پر پاکستان اور بھار ت اپنا حق جتلاتے ہیں’ مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ کشمیر اور شمالی آئرلینڈ کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت خود اس مسئلہ کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میںلیکر گیا تھا اور اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کروائے گا۔اسی طرح یواین کی جانب سے پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ رائے شماری کے اس فیصلہ کی پابندی کریںگی جبکہ دوسری طرف آئرلینڈ دو منقسم جزیروں کے درمیان مصالحت کا مسئلہ ہے۔ اس کیلئے نہ تو اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں اور نہ ہی اس طرح کا کوئی اور بین الاقوامی معاہدہ موجود ہے’ ویسے بھی ان سب تجاویز اور فارمولوں کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں پاس کردہ قرار دادوں کے ہم پلہ قرار نہیں دیاجاسکتا’یہی وجہ ہے کہ ماضی میں بھی جب کبھی مسئلہ کشمیرکے حوالہ سے اس طرح کا کوئی حل پیش کیا گیا’ اسے کشمیریوں کی جانب سے کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ وہ مظلوم کشمیری مسلمان جو1947ء سے غاصب بھارتی فوج کے مظالم برداشت کرتی چلی آرہے ہیں اور جنہوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد شہداء کی قربانیاں پیش کی ہیں۔جن کی ہزاروںمائوںبہنوں کی عزتیں تار تار کی گئیں۔دسیوں ہزار خواتین بیوہ ہو گئیں۔
Kashmir War
ہزاروں نوجوانوں کی مائیں آج تک اپنے زبردستی اغواء کئے گئے بچوں کی راہ تک رہی ہیں۔ کشمیر کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جہاں کشمیریوں کی عزتیں، جان و مال اور حقوق پامال نہ کئے جارہے ہوں۔آئے دن اجتماعی قبریں برآمد ہونے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے مگر اس سب کے باوجود ان کے جذبہ آزادی میںکوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایسی قوم سے یہ توقع رکھنا بھی عبث ہے کہ وہ بھارت سے مکمل آزادی اور الحاق پاکستان کے علاوہ کوئی اور حل قبول کرنے کیلئے تیار ہو گی۔جہاں تک بھارتی وزیر خارجہ کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں حالات کی بہتری کے ساتھ اپنی فوج، سنٹرل ریزرو پولیس اور دیگر نیم فوجی دستے نکالنے کی باتوںکا تعلق ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جو بھارت اپنی مرضی کے مطابق اقوام متحدہ میں پاس کی گئی دستخط شدہ قراردادوں پر عمل درآمد سے انکار کر چکا ہے’ اس سے ایسے کسی عمل کی کس طرح کوئی توقع کی جا سکتی ہے؟ یہ باتیںمحض دنیاکو دھوکہ دینے کیلئے ہیں۔ کشمیر میں جس درپردہ جنگ کا پروپیگنڈا کیاجارہا ہے وہ مظلوم کشمیریوں نے شروع نہیں کی۔
آٹھ لاکھ فوج بھارت نے داخل کر رکھی ہے جو ریاستی دہشت گردی کے ذریعہ نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ وہ کشمیر سے نکل جائے اور کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دے ‘سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔لندن میں جاری انڈوبرٹش آل پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ سرتاج عزیزبھی شریک ہوئے جنہوں نے بھارت سے دوستانہ تعلقات آگے بڑھانے کی بات کی اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ بھارت میںنئی حکومت کے قیام کے بعد مذاکرات کا عمل دوبارہ سے مضبوط ہو سکے گا۔
India,Pakistan
ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے پرویز مشرف کی طرف سے کی جانے والی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے نہ کہ ایک بار پھر سے ان غلطیوں کو دہرا جائے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی مسئلہ ہی کشمیر کا ہے’ جس کی وجہ سے کشمیری پچھلے چھیاسٹھ برسوں سے مشکلات اور مصائب سے دوچار ہیں۔ کشمیر کے حوالہ سے اب تک جتنے بھی آپشنز پر غور کیا گیاہے وہ تمام بیکار اور وقت کا ضیاع ثابت ہوئے ہیں اس لئے بھارتی ریاستی دہشت گردی کو پوری دنیا میں کھل کر بے نقاب کرنے اور کشمیریوں کا مورال بلند کرنے کیلئے بھارت سے اعتماد سازی کے اقدامات کی بجائے مظلوم کشمیری بھائیوں کا اعتماد بحال کرنے کی ضرورت ہے۔