تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد فاتحین نے اپنی فتح برقرار رکھنے کے لیے مل کر ایک ادارہ بنایا اقوام متحدہ یا United Nations Organisation جس کا نام امریکہ کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔اس کے لیے امریکہ (جو اس ادارے کا بانی ہے) کے شہر سان فرانسسکو میں25 اپریل، 1945ء سے 26 جون، 1945ء تک ایک کانفرنس منعقد ہوئی ،جس میں پچاس ممالک شامل تھے۔ اس کانفرس میں ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام پر غور کیا گیا۔آہستہ آہستہ اس ادارے کے ارکان کی تعداد بڑھتی رہی، سب ممالک نے سوچا چلو اچھی بات ہے کہ ایک مشترکہ ادارے کا قیام ممکن ہوا ہے اب اقوام متحدہ کے نمائندہ ممالک کی تعداد 192 ہے، مزے کی بات یہ کہ فلسطین اس کا رکن نہیں ہے کہ اسے اقوام متحدہ ملک ہی تصور نہیں کرتی تسلیم شدہ ملک نہیں ہے ۔اسرائیل ایک ملک ہے اور تسلیم شدہ ہے ،حالانکہ اس نے فلسطین کے بہت سارے حصہ پر قبضہ کیا ہے ۔دنیا میں ایک ہی تسلیم شدہ ملک اقوام متحدہ کا رکن نہیں اور یہ ملک ویٹیکن سٹی ہے۔
عالمی یوم اقوام متحدہ ہر سال 24 اکتوبرکو منایا جاتا ہے ۔یہ دن 1945 ء میں اقوام متحدہ کے منشور کے نافذالعمل ہونے کی سالگرہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے تمام ممبر ممالک ہر سال 24 اکتوبر کو مناتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور کارناموں سے متعارف کرایا جائے ۔ اور پھر اِس عالمی ادارے کے کام کے لیے ان کی حمایت حاصل کی جائے ۔اقوام متحدہ ایک اقوام عالم کے ساتھ کھیل، کھیل کر رہاہے، خاص کر مسلمان ممالک کے ساتھ اور مسلم ممالک خود بھی اپنے ساتھ کھیل ،کھیل کر رہے ہیں۔ مسلمان ممالک جن کی تعداد کم و بیش 62 کے قریب ہے، ان مسلم ممالک نے بھی مل کر ایک ادارہ بنایا ہے جس کا نام او آئی سی ہے ۔ گزشتہ دنوںتاشقند میں اسلامی تعاون تنظیم کی وزارئے خارجہ کونسل نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم بربریت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ قابض فوجیوں کی جانب سے مسلسل کرفیوکے باوجود کشمیری عوام کے مظاہرے بھارت کے خلاف کھلا ریفرنڈم ہے۔ تاشقند میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزارئے خارجہ کی کونسل کا 43 واں اجلاس ہوا۔
International Day of United Nations
اجلاس میں وزارئے خارجہ کی کونسل نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان حریت رہنما برہان وانی کے ماورائے عدالت قتل کے بعد ہونے مظاہرے بھارت کے خلاف ریفرنڈم ہیں بھارتی قابض افواج نے ان مظاہروں کو روکنے کے لئے ظلم بربریت کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا کہنا تھاکہ کرفیو کے بہانے کشمیری عوام کا بہیمانہ قتل، غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنے، کشمیری رہنماؤں کی گرفتاریاں، پیلٹ گن کے ذریعے نہتے عوام کو زخمی اور تاعمر بینائی سے محروم کیا جارہا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ وزارئے خارجہ کی کونسل نے کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دہشت گردی قرار دینے کی بھارتی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے ایک قرارداد بھی منظور کی جس میں او آئی سی کے رکن ممالک کی جانب سے حق خود ارادیت کیلئے کشمیریوں کی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا گیا اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت بھی کی گئی۔عالمی برادری کو بھی اب اپنی خاموشی توڑ دینی چائیے کیونکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کئے بناامن ممکن نہیں بھارت خوداقوام متحدہ میں کشمیر کا مسئلہ لے کر گیا تھا جہاں اس کی درخواست پر سکیورٹی کونسل میں قراردادیں پاس کی گئیںکہ استصواب رائے کے ذریعے کشمیری عوام خود اپنی مرضی سے اپنے الحاق کا فیصلہ کریں گے لیکن بھارت اپنے تمام وعدوں اور اقوام متحدہ کی قراردادں کو بھول گیا۔
اقوام متحدہ طاقت ور ملکوں کی ایک لونڈی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ،اس ادارے میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔اس بات کو ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ ویٹو کا حق پانچ ممالک کے پاس ہے ،جو دنیا کے سب سے طاقت ور ممالک ہیں، یعنی وہی جنگل کا قانون جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ،دو ارب کے قریب مسلمان 192ممالک میں سے 62سے زائد مسلمان ممالک ہیں ،ہر چوتھا فرد مسلمان ،لیکن ویٹو کا حق حاصل نہیں اس کے باوجود مسلم ممالک کو عقل نہ آئے تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ویٹو کے حق سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت بھی پوری دنیا میں کہیں نہیں ہے بس ڈنڈا ہے کہ اس کے زور پر کہا جاتا ہے، ہمیں جمہوری ملک کہو اور کمزور ممالک کو ایسا کہنا پڑتا ہے ،پہلی مثا ل افغانستان اور عراق میں بمباری ۔دوسری مثال مسئلہ فلسطین اورتیسری مثال مسئلہ کشمیر ہے۔
Kashmir Issue
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71 ویں اجلاس سے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے معصوم شہریوں کے بہیمانہ قتل عام کے حقائق جاننے کے لیے تحقیقاتی مشن بھیجا جائے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف نے کشمیریوں اور پاکستانی قوم کی جانب سے مطالبہ کیا کہ کشمیریوں کے قتل عام کی آزادانہ تحقیقات کی جائیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر پاکستان اور بھارت میں امن ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات چاہتا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو فوری رہا کیا جائے، کرفیو کا خاتمہ کیا جائے، کشمیریوں کو پرامن احتجاج کی آزادی دی جائے، زخمیوں کے لئے فوری طبی امداد کی فراہمی ممکن بنائی جائے اور بھارت کے کالے قوانین کو منسوخ کیا جائے۔انہوں نے کشمیر میں بھارتی مظالم کو عالمی رہنمائوں کے سامنے پیش کیا اور اسے واشگاف انداز میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی قرار دیا۔انہوں نے اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون کے سامنے بھارتی مظالم کے حوالے سے ثبوت بھی پیش کئے۔لیکن مجال ہے کہ ان سروں پر جوں تک رینگی ہواور اپنے ہی بنائے آئین اور قانون پر عمل درآمد ہو سکے۔
عام طور پر اقوام متحدہ کا منشور یہ بتایا جاتا ہے ۔1۔ مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا۔ 2۔ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا3۔ بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا۔ 4۔ ایک ایسا مرکز پیدا کرنا جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر سکیں۔لیکن اقوام متحدہ کا منشور اصل میں یہ ہے۔ 1 ۔ اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے( لیکن مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی اجازت ہے) 2۔ انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے( لیکن یہ قدر و منزلت کسی مسلمان کی نہیں ہوگی ۔3۔ مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے ۔ اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق برابر ہوں گے۔(ہماری کوشش ہو گی کہ عورت کو جنس بنا کر اسے شمع محفل بنایا جائے ،بے حیائی کو آزادی کا نام دیا جائے گا ) 4۔ ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے ۔ آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو۔(کوشش ہو گی کہ مسلمان ممالک قرض،غربت ،بے روزگاری،فرقہ پرستی کے چنگل سے نہ نکل سکیں)