کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ بھارتی جنرل کہتے ہیں کہ پاکستان سے جنگ کے آپشن کھلے رکھنے چاہیے ہیں، نریندر مودی کہتا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، بھارتی فوج 77 دن سے کشمیر کی وادی میں خون کی ہولی کھیل رہی ہے، اقوام متحدہ خاموش تماشائی ہے، عالمی ادارے بھارتی ہمدردی میں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں
او آئی سی ہمیشہ کی طرح اب بھی خواب غفلت میں محو ہے، ایسے میں پاکستان کے وزیر اعظم اور سپہ سالار کا کیا انداز ہونا چاہیے کس طرح کی حکمت عملی ہونی چاہیے یہ بات ہر ذی شعور کو معلوم ہے، مگر اب تک پاکستان وزیر اعظم اور سپہ سالار کا ایسا کوئی بیان نہیں آیا ہے جو کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکے اور ان کے غم کا مداوا کر سکے، کشمیر میں جو مظالم رواں رکھے جا رہے ہیں وہ دوسری جنگ عظیم کی یاد دلا رہے ہیں، کشمیر عوام کو آزاد زندگی کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، وفاقی کابینہ کو چاہیے کہ قومی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے تمام قومی و مذہبی جماعتوں سے ان کا موقف لے اور کشمیر کے حوالے سے کوئی حتمی حکمت عملی ترتیب دے، مزید ظلم و ستم پر خاموش رہے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
یہ صحیح وقت ہے کہ کشمیر کی ستر سال کی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنادیا جائے، تین جنگوں میں شکست کے باوجود بھی اگر بھارت کا جنگ کا شوق ہے تو ہم مقابلے کے لئے تیار ہیں، کشمیر کی آزادی کے لئے پوری قوم ہر قسم کی جدوجہد کے لئے تیار ہے، اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ملک بھر میں ہونے والے پروگرامات کے سلسلے میں وونے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ کشمیر کے معاملے پر وزیر اعثم جرات مندانہ بات کریں، اس بات کی مکمل وضاصت کی جائے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر تکمیل پاکستان نا مکمل ہے اور ممکنہ جنگ کا امکان تب ہی ختم ہو سکتا ہے کہ جب جموں و کشمیر کی وادی آزاد ہوگی، بھارت ایک عالمی دہشت گرد ہے جو جنوبی ایشیائی خطے میں طاقت کے بل بوتے دیگر ریاستوں و ممالک میں اپنی برتری برقرار رکھنا چاہتا ہے، دنیا میں اگر بھارت اور اسرائیل کا وجود ختم کردیا جائے تو دنیا جنت بن سکتی ہے۔
شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ قومی سطح کے رہنمائوں پر یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ مخالفت بازاری زبان استعمال کرنا شروع کردیں، یہ نا مناسب اور گمراہ کن رویہ ہے، ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور کشمیر میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہاے ہیں جب کہ خود کو قومی لیڈر کہنے والے چند سیاستدان بھیرئیے کی طرح ایک دوسرے کو نوچنے کی تیاری کر رہے ہیں، قوم اسلام آباد کو یرغمال ہوتے ہوئے اب نہیں دیکھے گی بلکہ مقابلہ کرے گی، قوم کو اس وقت ایک ایسے قائد کی ضرورت ہے جو ملک کی تمام اکائیوں کو اور تمام اداروں کو یکجا اور متحد لے لر کر چل سکے، موجودہ سیاسی نظام میں وہ صلاحیت نہیں کہ وہ قوم و ملت کو کسی صحیح راہ پر لا جا سکے، اگر وزیر اعظم جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کسی سخت رد عمل کا اثہار نہیں کرتے ہیں تو یہ پاکستان کی سفارتی ہار ہوگی، اس اجلاس کے موقع پر تمام صوبوں کے نمائندہ افراد موجود تھے۔