مسئلہ کشمیر، امریکہ و بھارت کی ریشہ دوانیاں اور ہماری حماقتیں

Muslim Killings

Muslim Killings

تحریر: اے آر طارق
آج جدھر بھی دیکھو ،مسلمان ہی ٹارگٹ ہیں اور مسلمان ہی نشانہ۔کیوبا،ابو غریب، گوانتانا موبے ودیگر جیلوں میں قید صرف مسلمان ہی ہیں،کوئی یہودی نہ ہے۔ظلم ہو رہا ہے تو مسلمان پر،عزتیں لٹ رہی ہیں تو مسلمان کی،جبرو استبداد کا سامنا ہے تو مسلمان کو،ہر طرف دھمکایا جا رہا ہے تو مسلمان کو،الغرض جدھر بھی دیکھیں ،مسلمان ہی مظلومیت کی تصویربنا دکھائی دیتا ہے۔فلسطین ،بوسنیا،چیچنیا،افغانستان ، عراق کشمیراور بھارت جدھر بھی دیکھیں، مسلمان کا ہی خون ارزاں دکھائی دیتا ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ آج ہم بے عمل،جہاد سے بے خبراور یہود ونصاریٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا چھوڑ چکے ہیں۔دنیا میں آج جتنی بھی جنگہیںہو رہی ہیں،و ہ دہشت گردی کے خلاف نہیںبلکہ مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں۔جن کا مقصد صلیبی جنگ کی ابتدا ہے۔(یاد رہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے فوری بعد، اس وقت کے امریکی صدربش ،اپنے اس وقت کے خطاب میں کروسیڈ(جس کے معانی صلیبی جنگ کے ہیں) جو مسلمانوں کے خلاف ہوتی ہے کا لفظ استعمال کر چکے ہیں۔وہ الگ بات ہے ان الفاظ کی ادائیگی کے فوری بعدواقفان حال کے انکشاف کرنے پر یہ کہہ کر الفاظ واپس لے لیے گئے کہ یہ انجانے میں نکل گئے تھے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ الفاظ انجانے سے نہیںبلکہ ایک تہہ شدہ منصوبے کے تحت بولے گئے تھے۔

امریکیوں کی فطرت ہے کہ یہ جو پہلے کہتے ہیں، بعد میں اس کی تردید بھی کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جو بات دل میں ہو،کبھی کبھی زبان پر آہی جاتی ہے،اسی طرح نائن الیون واقعہ کے وقت اس وقت کے امریکی صدربش کے ذہن ودل میں جو مسلمانوں کے بارے میںنفرت اورگندگی بھری تھی،وہ ‘ان کی طرف سے’کروسیڈ ”کے ا لفاظ ادا کرتے ہی سامنے آگئی تھی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی اپنے الفاظ کی سچائی کی طرح اپنے ”مکروہ عزائم کی” بجاآوری میں بھی کھرے ہیں،جو ارادہ ایک بار کر لیں ،اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی پوری کوشش کرتے ہیں،ایسے میں انہوں نے اپنے اندر کی درست نشاندہی کی تھی کہ یہ جنگ دہشت گردوں کے خلاف نہیں، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔جس کا بین ثبوت بعد ازاںاس کا مسلم ممالک پر چڑھ دوڑنا،سے جنگ اور وہاں خون ریزی پھیلاناتھا۔ پھر حقائق پرایک نظر دوڑائیں تو سارا نقشہ آپ کے سامنے گھومنے لگے گا اور مسلمان ہی آپ کو ہر طرف مظلومیت کی تصویر بنا نظر آئے گا۔ بھارت کو ہی لے لیں،اس نے آج تک ہمارا وجود ”پاکستان ”تسلیم نہیں کیا،جس کے باعث اس سے ہماری اسی وجہ سے تین جنگہیں ہو چکیں ہیں( اس وقت بھی حالات انتہائی کشیدہ ہیںاوربھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں اور جنگی ماحول پیداکیا جا رہا ہے،)وہ آئے روز ہماری نظر یاتی اساس پر حملہ کرتا رہتا ہے، مجاہدین کشمیر اور پاکستان آرمی کے خلاف من گھڑت ،زہریلا پروپیگنڈہ کرتا رہتاہے،جس کا حقائق کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہوتا،سازشوں کے جال بننا اس کا کام ،جھوٹ ،ڈرامہ بازی اورمکاری وعیاری اسکی خاندانی وراثت ہے۔

Punished Muslims in India

Punished Muslims in India

اس نے اپنے ملک بھارت میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے ،مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور مسلمان مردوخواتین کو زندہ جلایادیا جاتا ہے۔(گجرات کے مسلم کش فسادات اس کا بین ثبوت ہیں) وہاں ہندو تعصب پسندوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان کو نیزوں،برچھیوںپر آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔وہاںجان ومال تو پہلے ہی محفوظ نہیں،عزتوں سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کیا جا تا۔ بھارت میں مسلمان مردوخواتین سے ظلم و زیادتی کابازار گرم ہے۔اقلیتوں سے بھی ناروہ سلوک روارکھا جا رہا ہے۔وہ بھی مودی سرکار سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ بھارتی انتہا پسند تنظیم ”شیو سینا”نے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے،میڈیا پرسن ،شوبزسے وابستہ افراداور عام لوگ تک ان کی بھونڈی حرکات کی وجہ سے پریشان اور تکلیف میں ہیں۔ سکون نام کو نہیں ،ہر طرف خوف وہراس کی فضاء پیدا کر رکھی ہے۔ بھارتی عوام ان انتہاء پسندٹولے کے ہاتھوں یرغمال ہے اورمودی حکومت بجائے اس کے کہ ان کو نکیل ڈالے،خود ان کی آلہ کار بنی ہوئی ہے۔

بھارت ہمارے ملک کے اندرونی وبیرونی معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرتا ہے،۔سندھ اور بلوچستان کی خراب صورتحال میںاس کا بہت بڑا ہاتھ ہے، سکولوں ،پارکوں، کچہریوں اور پبلک مقامات پر بم دھماکوںمیں راء کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔(بھارتی جاسوس ،انڈین نیوی کے حاضر سروس جنرل گلبھوشن یادیوکے اس حوالے سے بیانات اور تہلکہ خیز انکشافات منظر عام پر ہیں،جس نے بھارت کے مکروہ اور گھناوے چہرے سے نقاب اتار دیا ہے )پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں مختلف مقامات پربم حملے ،ملک میںپائی جانے والی ہربد امنی ، افراتفری کے پیچھے بھی ہمسایہ ملک بھارت کا ہاتھ ہے ۔ملک میں جتنے بھی ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں،تحقیق کرنے پراس کی کڑیاں کہیں نہ کہیں جا کر بھارت سے ہی ملتی ہیں۔کوئٹہ کے ہسپتال اور کچہریوں میں رونما ہونے والاحالیہ واقعہ میں بھی بھارت ملوث ہے۔ بھارت جس نے ہماری ہر کمزوری اور کوتاہی سے بھرپور فائدہ اٹھایا،وہ ہماری تاک میں بیٹھا ہوا ہے،موقع ملتے ہی موقع سے فائدہ اٹھائے گا،بالکل اسی طرح جس طرح اس نے مشرقی بنگال کو پاکستان سے الگ کر کے اٹھایا۔بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ہمارے بزدل حکمرانوں کی بزدلی کی وجہ سے کارگل کی جیتی ہوئی جنگ مذاکراتی میز پرصرف امریکی صدر کلنٹن کی ایک فون کال پرسرنڈرہوکر ہار دی، جس کی وجہ سے بھارت نے اپنی 37000 فوج وہاں سے باحفاظت نکال لی اور آج وہ کشمیربھی ہتھیانے کے چکروں میں ہیں(اس سلسلے میں آئے روز نئے نئے انکشافات، بیانات، فارمولے آتے رہتے ہیں)اور ہم ہیں کہ ان کے ہر آنے والے بیانات اور فارمولے کا خیر مقدم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، چاہے وہ مفاد میں ہو یا مخالفت میں، ہمارے وزراء جن کا کام ہی دوسروں کے اراگ الاپنا ہے، بیانات داغتے وقت ملکی مفاد کو بھی ذہن میں نہیں رکھتے ۔ان کے ایک واقعہ پر ہی بیان ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے،باقی واقعات پر بیان بازی کا اللہ ہی حافظ ہے۔ہ

Opposition Parties

Opposition Parties

مارے ایوان حکومتی و اپوزیشن ارکان کے نا مناسب رویے کے باعث مچھلی منڈی بنے ہوئے ہیں۔وہ آپس میں دست و گریبان ہیں،ایک دوسرے پر الزام لگانا،کیچڑ اچھالنا، برے القاب سے بلانا اورغلیظ گالیاں بکنامحبوب مشغلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ایوان کا تقدس بری طرح پامال ہو رہا ہے۔ ارکان اسمبلی سے صرف اتنا ہی کہنا ہے کہ یوں ہی لڑتے جھگڑتے نہ رہیے بلکہ پیش آنے والے معاملات کو باہمی مشاورت سے حل کیجیئے، اسی میں ہماری اور ملکی ترقی کا راز مضمر ہے اورپالیسی بیانات جاری کرتے وقت ملکی مفاد کو بھی ملحوظ خاطر رکھا کریں۔کیونکہ بھارت اسی چیز کو اپنے میڈیا پر اچھال کر پاکستان کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ وہ اس طرح کے معاملات کو ”بڑھا چڑھا ،مرچ مصالحہ ” لگا ّکردنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ پاکستان کا امیج بیرونی دنیا میں متاثر ہو سکے۔ بھارت کوپاکستان میں بد امنی، دہشت گردی والے عناصر ،غربت،مہنگائی اور بے روزگاری نظر آتی ہے مگر اسے اپنے ہاں پائی جانے والی مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیاںکیوں نہیں دکھائی دیتیں۔اسے اپنے ملک میںبھوک سے روتے ،بلکتے ،افلاس کے مارے لوگ اور فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے افراد کیوں نہیں نظر آتے،ان پر نگاہ کیوں نہیں پڑتی۔ امریکہ کا حال بھی یہی ہے کہ اسے دوسرے ملکوں میں ”انتہا پسندی”تو نظر آتی ہے مگر اپنا ظلم دکھائی نہیں دیتاجو، وہ گوانتاناموبے،کیوبا، ابوغریب جیل میں کئی سالوں سے مسلمانوں پر ڈھا رہا ہے۔

(افسوس کہ مسلم امہ میں بھی اب اس مظالم پر آواز نہیں اٹھا ئی جا رہی اورعرب ممالک کاضمیر بھی ایسے معاملات میں مردہ ہوچکا ے۔ امریکہ جو پوری دنیا میںخود کو” انصاف کا پیروکار ”کہلوانے کا دعویدار ہے۔عراقی قوم کو آزادی کا ”مثردہ” سناتا ہے کو اپنے ہی ملک گھٹن کیوں محسوس ہوتی ہے،کیوں اس پرالقائدہ، داعش کے خوف کا سایہ منڈلاتارہتا ہے، دراصل وہ اس سے ڈرا کر دہشت گردی (مسلمانوں) کے خلاف جاری جنگ میںاپنی عوام کا تعاون چاہتا ہے،اس لیے وہ اپنے مذموم اور ناپاک مقاصدکو جاری رکھنے کی خاطراپنی قوم کے ذہنوں میں القاعدہ اور داعش کا خوف زندہ رکھنا چاہتا ہے ،جو کہ ایسا کیے بغیر ممکن نہیں ۔امریکہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کی خواہش ،تمنا اور آراء پر مبنی حل ہی ہم پر زبردستی ٹھونسنا چاہتا ہے ،جس کا سارا فائدہ بھارت کو پہنچنے کی امید ہے کیونکہ امریکہ کی تمام تر ہمدردیاں بھارت کے ساتھ ہیں، پاکستان کے ساتھ تو اس کے مفادات وابستہ ہیںجبکہ بھارت کے ساتھ اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے،ہم سے امریکہ مطلب کی حد تک ہے، مطلب نکلتے ہی ہاتھ کھینچ لے گا ۔اس لیے ہمیں کشمیر کے مسئلہ پر کسی بھی زبر دستی حل کو مسترد کرنا ہو گا اور پسپائی اختیار کرنے کی بجائے اسے پوری جرات کے ساتھ کشمیریوں کی رائے کے عین مطابق ہی حل کرنے پرہر فورم پر زور دینا ہوگا۔کیونکہ یہی رستہ منزل کی طرف جاتا ہے اور صحیح رستہ ہے،اگر ہم یونہی ہر مسئلے پر پسپائی اختیار کرتے رہے تو وہ دن دور نہیں ہے ،جب ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔

A R Tariq

A R Tariq

تحریر: اے آر طارق
03074450515
03024080369
نیا کالم بھیج رہا ہوں،لگا کر شکریہ کا موقع دیں۔