تحریر : علی عمران شاہین ُاُحد کا میدان تھا اور امام المجاہدین نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ میں تلوار لئے کھڑے تھے اور پنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے کہ اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا؟ تلوارپر یہ شعر کندہ تھا۔
”بزدلی میں شرم ہے اور آگے بڑھ کر لڑنے میں عزت ہے اور آدمی بزدلی کر کے تقدیر سے نہیں بچ سکتا۔” نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز مبار ک سن کربہت سے لوگ اس سعادت کے لئے لپکے مگر یہ فخر و شرف حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نصیب میں تھا کہ تاجدار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی یہ تلوار اپنے ہاتھ سے حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں دے دی۔ وہ یہ اعزاز پا کر جوش مسرت میں جیسے مست و بے خود ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ !اس تلوار کا حق کیا ہے؟ارشاد فرمایا ”تو اس سے کافروں کو قتل کرے یہاں تک کہ یہ ٹیڑھی ہو جائے۔”
حضرت ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں اس تلوار کو اس کے حق کے ساتھ لیتا ہوں۔ پھر وہ اپنے سر پر ایک سرخ رنگ کا رومال باندھ کر اکڑتے اور اتراتے ہوئے میدان جنگ میں نکل پڑے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے اور تلوار چلاتے آگے بڑھتے ہی چلے گئے۔ آپ نے معرکہ کارزار میں نہایت پامردی سے مقابلہ کیا اوربہت سے کافر قتل کئے اور رسول اللہ ۖ کی حفاظت میں بہت سے زخم کھائے لیکن میدان سے نہ ہٹے تھے۔ حضور اکرمۖ ان کی اس جانبازی سے نہایت خوش ہوئے مکان پر تشریف لائے تو حضرت فاطمہ سے فرمایا میری تلوار دھوڈالو، حضرت علی نے بھی آکر یہی خواہش کی اورکہا کہ آج میں خوب لڑا۔ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اگر تم خوب لڑے تو سہل بن حنیف اور ابو دجانہ بھی خوب لڑے۔
آج لگ بھگ ساڑھے چودہ سو سال بعد ایک بار پھر میدان سجا ہے، جہاں ابو دجانہ رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والا ایک مجاہد کشمیر کے لالہ زار میں معرکہ آرا ہے اور اس کے دشمن ”ابو دجانہ مارا گیا ہے۔ابو دجانہ مارا گیا ہے” کی نحیف آوازیں نکال کر ایک دوسرے کو جیسے مبارک باد دے رہے تھے۔مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے گائوں ہاکری پورہ کا گھنٹوں سے گھیرائو کئے بھارتی فوجی انتہائی سرگوشی کے عالم میں اور کانپتی لرزتی زبان کے ساتھ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے تو انہیں ان الفاظ کے ساتھ قدرے اطمینان بھی ہو رہا تھا جیسے ان کے سروں پر لٹکتی تلوار اب ہٹ گئی ہو۔وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک ابو دجانہ کے چلے جانے سے ان کی جان نہ پہلے چھوٹی نہ اب چھوٹے گی۔17 سال کی عمر میں محمد بن قاسم کی تاریخ کو دہراتے میدان جہاد میں قدم رکھنے والے ابو دجانہ نے بھارت اور بھارتی فوج کے ساتھ 10 سال تک انہیں راجہ داہر کی یاد دلاتے ہوئے وہ زک پہنچائی کہ سارا بھارت، ساری بھارتی فورسز اور ایجنسیاں اسے اپنے لئے سب بڑا دردِسر قرار دیتی تھیں۔
ہر فارغ وقت میں تلاوت قرآن کو معمول بنائے رکھنے والے ابو دجانہ کو سارے مقبوضہ کشمیر میں ”حافظ صاحب” کے لقب سے پکارا جاتا تھا اور بھارتی ادارے اسے حافظ کہا کرتے تھے۔بھارتی ایجنسیوں کے بقول ابو دجانہ کشمیر کے کونے کونے سے بخوبی واقف تھا اور سارا کشمیر ہی اسے بخوبی پہچانتا تھا۔ابو دجانہ شعلہ بار مقرر تھا اور بھارتی اداروں کے بقول وہ شہید کشمیری مجاہدین کے جنازوں میں پہنچ کر ایسی تقریر کر تا کہ پتھر دل بھی پگھل جاتے اور کتنے نوجوان ایک شہید کی بندوق گرنے سے پہلے اٹھانے کے لئے تیار ہوتے تھے۔اس کی انہیں تقریروں نے کشمیر بھر سے بیسیوں نوجوانوں کو رزم حق و باطل میں اتا را تھا ۔بھارت کہتا ہے کہ اس نے مقبوضہ کشمیر میں اینے پیشرو ابو قاسم کی جگہ سنبھالی تھی جو یہیں پلوامہ میں شہید ہوئے تھے اور ان کے سفر آخرت میں اتنا بڑا ہجوم امڈ آیا تھا کہ اس نے بھارت اور بھارتی فوج کو پالیسیاں بدلنے پر مجبور کر دیا تھا۔
اس جنازے میں ابو دجانہ نے خطاب بھی کیا تھا اور لوگوں سے انتقام لینے کے لئے میدان میں اترنے کی اپیل کی تھی ۔اس کے بعدوہ مئی2016ء میں ایک اور شہید مجاہد کے جنازے میں شریک ہو ا اور ایسا پر اثر خطاب کیا کہ پلوامہ آج بھی ساری تحریک آزادی کی رہبری کر رہا ہے۔ابو دجانہ کے بارے میں بھارت کہتا ہے کہ یہ وہ مجاہد تھا جس نے مقبوضہ کشمیر میں سب سے زیادہ عرصہ تک جہاد کی کمانڈ کی اور بھارتی فوج پر اتنے بڑے بڑے حملے کئے کہ بھارت نے اسے A+ کے درجے میں ڈال رکھا تھا اور اس کے سر کی قیمت 10لاکھ سے شروع کر کے اب 30لاکھ مقرر کر رکھی تھی جو جہادکشمیر کی30سالہ تاریخ میں کسی بھی مجاہد کے سر کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔ہاکری پورہ میں جب محاصرہ اور معرکہ شروع ہوا تو بھارتی فورسز نے ابو دجانہ اور اس کے ساتھی عارف للہاری کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا جس کے جواب میں گولیوں کی بارش نے پیشکش کرنے والے کئی دہشت گردوں کو خاک و خون میں تڑپا دیا۔پھر انہوں نے اس گھر پراپنے اسلحہ سے جس قدر آتش و آہن پھونکا جا سکتا تھا پھونکنا شروع کر دیا لیکن بات نہیں بن پا رہی تھی۔
آس پاس کے علاقوں میں خبر پھیلی تو ہزاروں لوگ اس طر ف لپکنا شروع ہو گئے ۔وہ آج ایک بار پھرچند ہفتے قبل 24 مئی 2017ء کی تاریخ دہرانا چاہتے تھے جب اسی گائوں میں ابو دجانہ کا ایسے ہی محاصرہ ہوا تھا تو انہوں نے بھارتی فوجیوں پر پتھروں کی بارش سے انہیں سنگسار کر کے یہاں سے بھاگنے اور ابو دجانہ کو محفوظ نکلنے کے لئے راستہ بنا کر دیا تھا لیکن آج تقدیر میں کچھ اورلکھا تھا۔ 70سے زیادہ لوگوں کے زخموں سے چور ہونے اور 2کے سینوں میں گولیاں کھا کر جام شہادت نوش کرنے کے باوجود بات نہ بن پائی اور بھارتی فوج نے پہلے مارٹر گولوں ،پھر باردوی سرنگوں اور پھر ڈرون میزائل کے ذریعے حملہ کر کے اس گھر کو ریزہ ریزہ کر دیا جہاں یہ دو مجاہدین فی سبیل للہ مورچہ زن ہو کر معرکہ آرا تھے۔کئی گھنٹوں کی خاموشی کے بعد بھی بھارتی فوج ایک قدم آگے بڑھنے پر تیار نہیں تھی کہ نجانے ماضی کے کسی واقعہ کی طرح ملبہ سے ہی ان پر گولیوں کی بارش نہ شروع ہو جائے ۔پھر ایک بلڈوزر منگوایا گیا اور اس کے ذریعے ملبے کو ہٹا کر دونوں مجاہدین کے اجساد خاکی کو نکالا گیا۔اللہ کی شان دیکھئے کہ اتنی تباہی مچانے اور اتنا گولہ باروو پھونکنے کے بعدبھی دونوں راہروانِ قافلہ شہادت کے جسم صحیح و سالم نکلے۔
بھارت خوشی سے جھو م رہا تھا کہ اس نے بہت بڑا ہدف حاصل کر لیا ہے۔ اس کا وزیر مملکت برائے دفاع کرن رینجو کہہ رہا تھا کہ ان کی سکیورٹی فورسز بہت بڑا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ ابو دجانہ ہمیں بہت مطوب تھا، وہ بہت دفعہ محاصرے توڑ کر نکل گیا تھا لیکن اب کی بار ہم کامیاب رہے ہیں۔ان سب کو مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا ایک سپاہی انجینئر رشید لنگیٹ یہ کہہ کر للکار رہا تھا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ابو دجانہ غلط تھا تو انہوں نے سارے کشمیر میں کرفیوکیوں لگایا ؟انٹر نیٹ پر پابندی کیوں عائد کی ؟ تعلیمی ادارے کیوں بند کئے۔؟ ابو دجانہ کو سارا کشمیر ہیرو مانتا تھا اور اب بھی مانتا ہے۔
بھارت نوشتہء دیوار پڑھ لے۔ ہاکری پورہ معرکے کی خبرپھیلی تو سرینگر سمیت کتنے علاقوں میں جلوس نکلے اور طلبہ وطالبات تک بھارتی فورسز پر پتھرائو کرتے دکھائی دیئے ،اسی لئے تو سارا تعلیمی نظام چوپٹ کر دیا گیا تھا۔ ابو دجانہ کی زندگی میں بھارتی فورسز اس کے نام سے کانپتی تھیں تو اس کی شہادت کے بعد اس کی لاش سے بھی انہیں خوف آتا تھا۔
اسی لئے ابودجانہ کو ضلع بارہمولہ کے مضافاتی گائوں گانٹہ مولہ میں پولیس نے انتہائی خفیہ طور پر لا کر رات کے اندھیرے میں چند مقامی لوگوں کو بندوق کے زور پر ساتھ ملا کر سپرد خاک کیا۔جب یہاں قبر بنائی جا رہی تھی تو لوگ اندازے سے ہی بڑی تعداد میں جمع ہوئے لیکن فوج نے جان بوجھ کر تدفین میں تاخیر کی۔
مقامی لوگو ں کے مطابق ابودجانہ کی میت گیارہ بجے کے قریب ”غیر ملکی مجاہدین” کیلئے بنائے گئے قبرستان پہنچائی گئی تھی۔ نماز جنازہ کے لئے مقامی امام کو بلایا گیا تو کچھ لوگوں کو خبر پہنچی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا جنہوں نے سخت پہرے میں نماز جنازہ ادا کی۔اس دوران تدفین کی خبر پھیلی تواس وقت بھی آس پاس کے بے شمارلوگوں نے وہاں آکر دعا کی اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔
بھارت 30سال کتنے ابو دجانہ شہید کر چکا، لیکن ہر جانے والے کے خون سے کتنے نئے ابو دجانہ پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے۔ بھارت دیکھ لے کہ وہ کب تک ان کا مقابلہ کر سکتا ہے اور کب تک اس میں حوصلہ ہے، ورنہ مکمل بربادی اس کا مقدر نظر آ رہی ہے۔