کشمیر کی جغرافیائی حیثیت اور اس کے مسلم تشخص کے باعث قائداعظم نے اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور وہ اس بات پہ یقین رکھتے تھے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے انہوں نے کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ چنگل سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کیـ قائداعظم کو اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ کشمیر اور پاکستان ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزم ہیںـ انہوں نے اْس وقت کشمیر ی لوگوں کی حالت زار پر توجہ دی جب ان کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہ تھا۔ قائداعظم نے واضح الفاظ میں کشمیر پر بھارتی جارحیت کی مذمت کی وہ اس مسئلہ کا پر امن حل چاہتے تھے لیکن کشمیر کو آزاد کراوانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے جس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ انہوں نے اْس وقت کے پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف جنرل ڈگلس گریسی کو جموں اور سرینگر میں فوجی دستے روانہ کرنے کا حکم دیاـقائداعظم نے زیارت میں اپنی شدید علالت کے دوران فرمایا کہ “کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی قوم یا ملک اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے کیسے برداشت کر سکتا ہے؟ “پاکستان نے اقوام متحدہ سمیت ہر اہم عالمی فورم پر بھارتی جارحیت وبربریت اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا لیکن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوششوں کو بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی کی باعث ناکام کیا اور ہمیشہ فرار کی راہ اختیارکرتے ہوئے مقبوضہ وادی پر اپنے ناجائز قبضے کو طوالت بخشی ہے۔
سلامتی کونسل کی قراردادیں جو اگست1948ء اور جون1949ء میں منظور ہوئی تھیں وہ بھی یکسر واضح ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر سے فوجی انخلا اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزادانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے جس کی بنیاد پر کشمیر کے الحاق کا فیصلہ ہو گا۔ بھارت اور پاکستان دونوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں سے اتفاق تھا۔جموں اور کشمیر کے عوام کو استصواب رائے کا حق دینے کے لئے بھارت نے کئی وعدے کئے،لیکن وہ اپنے ہر وعدے سے انحراف کرنے کا ایک طویل ریکارڈ رکھتا ہے۔ جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے الحاق کا فیصلہ کشمیری عوام کی رائے معلوم کر کے کیا جائے گا۔ بھارتی وزیراعظم نہرو نے برطانیہ کے وزیراعظم ایٹلی کے نام ایک تار بھیجا جس میں یہ لکھا تھا کہ ”ہم کشمیر پر دباؤ ڈال کر بھارت سے الحاق کا فیصلہ نہیں کروانا چاہتے۔
جموں و کشمیر کے الحاق کا مسئلہ عوام کی رائے کے مطابق طے ہونا چاہئے اور ہم اس اصول پر قائم رہیں گے”۔نہرو نے وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے نام بھی درج ذیل مضمون کا تار بھیجا۔”مَیں آپ کو یقین دِلاتا ہوں کہ کشمیر کے الحاق کے حوالے سے عوام کی رائے اور منظوری حاصل کی جائے گی۔ بھارتی حکومت اپنا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہتی اور اس سلسلے میں عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے گا”۔ نہرو نے ایک نہیں کئی بار یہ وعدے کئے کہ کشمیر میں امن و امان قائم ہونے کے بعد عوام اپنی رائے سے خود کشمیر کے الحاق کا فیصلہ کریں گے۔عوام کا ہی یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے بھارت سے اور چاہے پاکستان سے کشمیر کے الحاق کا فیصلہ کریں۔ نہرو نے یہ بھی کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو الحاق کا فیصلہ اپنی مرضی سے کرنے کی یقین دہانی صرف کشمیری عوام کے ساتھ نہیں، بلکہ پوری دْنیا کے ساتھ میرے عہد کی حیثیت رکھتی ہے،مگر نہرو نے اپنے کسی عہد و پیمان کی پاسداری نہیں کی۔
دراصل سی پیک اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو آسانی سے نشانہ بنانے کیلئے 370اور35اے کی آڑمیںامریکہ کو کشمیر میں گھسنے کا موقع فراہم کیا گیا ۔حالانکہ5 اگست 2019 ء کے بعد سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بہیمانہ جبر و استبداد میں اضافے پر سلامتی کونسل میںکئی مرتبہ مسئلہ جموں و کشمیر زیرغور آچکا ہے اس پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے تشویش کا اظہار تو کئی بار کیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی جوسوالیہ نشان ہونے کے ساتھ ساتھ افسوسناک امر ہے ۔دنیا بھر کے ایوانوں میں جموں و کشمیر کے مسئلے پر بحث ہوئی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بے نقاب کر رہا ہے لیکن تاحال ان سنگین خلاف ورزیوں کا کوئی سدباب نہیں کیا گیا ۔ کشمیری اپنے اسلاف کی تقلیداور کفار کیخلاف جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اختیار کر تے ہوئے آزادی کی خوں رنگ تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کررہے ہیںاورمودی حکومت اپنے جنگی جنون اور جارحیت کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ایل او سی پربھارتی اشتعال انگیزی اور مقبوضہ وادی میں کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات افسوسناک ہیں۔
بھارت شروع دن سے ہی ایشیاء پر اپنی اجارہ داری کیلئے پاکستان،چین اور خطے کے دیگر ممالک کی سلامتی اور خوشحالی کے درپے ہے یہی وجہ ہے کہ مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جا رہاہے۔مقبوضہ وادی میںوحشیانہ محاصرے کی آڑ میں بھارتی قابض فورسز کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پراقوام عالم کو ہرگز لاتعلق نہیں رہنا چاہئے، خطے میں حالات معمول پر ہونے کا مسلسل بھارتی پراپیگنڈہ بے سود اور ناکام ثابت ہواہے، جھوٹے اور خلاف حقیقت بیانیے کو پھیلانے کے لئے بھارت کا ایڑی چوٹی کا زور کام نہیں آیا۔مقبوضہ جموں و کشمیر کا 5 اگست 2019 ء سے اب تک بیرونی دنیا سے ہرقسم کا رابطہ منقطع ہے جبکہ بھارت نے وادی میں احتجاج اور مظاہروں کو کچلنے کے لئے ہزاروں اضافی سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا۔بھارت اگر واقعی جمہوریت کا علمبردار ہے تو اسے چاہئے کہ اقوام متحدہ کی قرادادوں پر عمل کرتے ہوئے کشمیر میں ظلم و جبر کا سلسلہ فوری بند کرتے ہوئے کشمیریوں کے سچے جذبات کا احترام کرے۔
پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے طویل محاصرے پرعالمی قیادت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کمشنر کی جانب سے بڑھتی ہوئی تشویش اور مطالبوں کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن یہاں ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ مودی حکومت کے ظلم و ستم کو فوری بند کرایا جائے تاکہ قیام امن کا خواب شرمندئہ تعبیر ہو سکے۔ کشمیر میں نہتے شہریوں پر مودی کی جارحیت و درندگی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔ لہٰذا خطے میں قیام امن کی کوششوں کو زائل ہونے سے بچانے کیلئے ”بنیئے”کی مذموم سازشوں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی ۔ دوسری جانب اگر یہ کہا جائے کہ وزیر اعظم عمران خان کا آزاد کشمیر میں مرحلہ وار دو ریفرنڈم کرانے کا عندیہ کشمیر پر پاکستان کے اصولی موقف کو غارت کرنے کے برابر ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کی بات اس لئے بھی غیرمنطقی ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں آزاد کشمیر میں ریفرنڈم کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں نکلتی۔ پھر مجوزہ ریفرنڈم میں کشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ رہنے یا اپنی الگ آزاد ریاست بنانے کی آپشن دینا اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنیوالے ان لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کو رائیگاں کرنے کے مترادف ہے۔