کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے مودی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بدلنے پر اعتراضات کے جواب میں پانچ رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ توقع ہے کہ یہ بینچ اکتوبر میں کیس کی سماعت کرے گا۔
بھارتی عدالت نے مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو نوٹسز جاری کیے کہ وہ اس ضمن میں دائر کردہ مختلف آئینی پٹیشنوں کا جواب داخل کرائیں۔
بھارتی حکومت کی طرف سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ مرکز کو نوٹس جاری نہ کیا جائے کیونکہ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال اور سولیسٹر جنرل دونوں بذات خود عدالت میں موجود تھے۔ اس موقع پر بھارتی اٹارنی جنرل نے کسی پڑوسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ عدالت کی طرف سے حکومت کو نوٹس جاری کیے جانے کے ”سرحد پار اثرات‘‘ ہوں گے اور اس عدالت کی کارروائی کو اقوام متحدہ کے سامنے استعمال کیا جائے گا۔
لیکن چیف جسٹس رانجن گوگوئی نے بھارتی اٹارنی جنرل کے دلائل رد کرتے ہوئے کہا کہ، ”ہمیں پتہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔ ہم نے آڈر پاس کردیا ہے اور ہم اُسے تبدیل نہیں کریں گے۔‘‘ اس موقع پر چیف جسٹس نے واضع کیا کہ اب اس سارے معاملے کو پانچ رُکنی آئینی بینچ دیکھے گا۔
اسی دوران سپریم کورٹ نے کشمیر ٹائمز کی ایگزیکیوٹو ایڈیٹر انورادھا بسین کی کشمیر میں میڈیا پر بھارتی حکومت کی قدغنوں سے متعلق ایک پٹیشن پر مقامی انتظامیہ اور مرکزی حکومت کو سات روز کے اندر اپنے جوابات داخل کرنے کی ہدایت کی۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں چار اگست کی شب سے ذرائع ابلاغ پر مختلف نوعیت کی پابندیاں لاگو ہیں جبکہ موبائل فون اور انٹرنیٹ رابطے بڑی حد تک منقطع کر دیے گئے ہیں۔