نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت میں مودی حکومت کے نئی دہلی کے زیر انتظام جموں کشمیر کے متنازعہ علاقے کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ یہ درخواست سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے رپورٹوں کے مطابق اس جنوبی ایشیائی ملک میں قانونی شعبے سے متعلق خبروں کی ایک ویب سائٹ ‘لائیو لاء‘ نے آج بتایا کہ اس درخواست میں بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی ایک بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کی طرف سے ملکی سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ مودی حکومت کے اس فیصلے کو مسنوخ کرے، جس کے تحت چند روز قبل جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
اس درخواست میں نیشنل کانفرنس کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے کہ جموں کشمیر کو بھارتی دستور کے تحت ایک خاص آئینی حیثیت حاصل ہے، جس کے خاتمے کا نئی دہلی میں مودی حکومت کا حالیہ فیصلہ اس لیے غیر آئینی ہے اور فوراﹰ منسوخ کیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے لیے مرکزی حکومت نے جموں کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بجائے یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر کیا ہے۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ میں یہ قانونی چیلنج اپنی نوعیت کا وہ پہلا سنجیدہ قانونی معاملہ ہے، جس کے ذریعے مودی حکومت کے اس اقدام کی عدالتی سطح پر مخالفت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس درخواست کی محرک سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی ان دو بڑی علاقائی سیاسی جماعتوں میں سے ایک ہے، جنہیں سیاسی طور پر اس منقسم اور متنازعہ خطے میں اہم ترین ‘اسٹیک ہولڈرز‘ سمجھا جاتا ہے۔
یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا بھارتی سپریم کورٹ اس درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور بھی کر لے گی۔ اس سے قبل بھارتی حکومت کی طرف سے تاہم یہ کہا جا چکا ہے کہ چونکہ ریاست جموں کشمیر کی علاقائی اسمبلی معطل ہے اور اس خطے میں براہ راست صدارتی حکمرانی کا نظام رائج ہے، اس لیے علاقائی اسمبلی کے اختیارات بھی مرکزی پارلیمان کو منتقل ہو چکے ہیں، جس نے باقاعدہ قانون سازی کر کے ہی اس ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ساتھ ہی مودی حکومت کی طرف سے اپنے اس فیصلے کے حق میں یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ حکومت نے جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا فیصلہ اسی آئینی شق کے تحت کیا ہے، جس کے تحت مرکز کو یہ اختیار حاصل ہے کہ بھارتی صدر ریاست میں کسی بھی وقت اس کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کر سکتے ہیں اور سیاسی طور پر کیا بھی ایسا ہی گیا تھا۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما عمر عبداللہ، جو ریاست کے ایک سابق وزیر اعلیٰ بھی ہیں، اور سینکڑوں دیگر سیاستدانوں اور سرگرم سیاسی کارکنوں کو بھارتی حکام نے اس فیصلے کے اعلان سے قبل یا اس کے فوری بعد سے گرفتار کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی حکومت کی طرف سے اس خطے میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی سکیورٹی اہلکار بھی تعینات کیے جا چکے ہیں اور گزشتہ اتوار سے وہاں اس لیے کرفیو کے ساتھ ساتھ ایک سکیورٹی لاک ڈاؤن کی کیفیت بھی ہے کہ کشمیری عوام کو نئی دہلی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف پرتشدد مظاہروں سے روکا جا سکے۔