تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ یہ ١٩٩٠ء کی بات ہے کہ کشمیر کے حریت پسندوں نے کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع کی۔ اس کی بنیادی وجہ کشمیر میں بھارت کے ڈراما الیکشن ہیں۔ جس میں پانچ فی صد ووٹ پڑتے رہے ہیں۔ جس میں جیتنے والوں کشمیریوں کو ذبردستی ہرا دیاجاتاہے۔ ان ہی وجوہات کی وجہ سے کشمیری کو ہتھیار اُٹھانے پر مجبور کیا گیا۔ پوری دنیا ورطۂ حیرت میںپڑ گئی کی اب جموں کشمیر کے لوگ بھارت کے فوجی قبضے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔یہ پرزور تحریک آزادی عالمی برادری کی توجہ اپنی اپنی جاب مبذول کرانے میں کامیاب ہوئی۔اس کامیابی کے جواب میں بھارتی درندہ صفت فوج نے جمو ں و کشمیرمیں طویل ظلم و تشدد اور جبر و سفاکیت کا مسلسل بازار گر کر دیا۔قتل و غارت گری،لوٹ مار، گھیرائو جلائو، عصمت دری اور کشت و خون سے پوری ریاست کو لالہ زار بنا دیا۔بھارتی سفاک درندہ صفت کا خیال تھا کہ اس طرح وہ کشمیر کی تحریک تکمیل پاکستان کو دبا دیں گے یا کشمیری اس تحریک سے دستبردار ہو کربھارت کی غلامی منظور کر لیں گے۔اس سوچ کے مقابلے میں مجائدین آزادی کشمیر نے اپنی تحریک جاری رکھی۔بھارتی درندوں نے ہتھیار بند اور عام شہریوں کی تمیز کیے بغیر پوری کشمیر کی آبادی کو بے تحاشا قتل عام کیا۔اس قتل عام کے باوجود کشمیر برزگوں، بچوں اور بیٹیوں نے یہ تحریک جاری رکھی۔دو عشروں کے درمیان بھارتی سفاک فوج نے کشمیر کے بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں لوگوں کو شہید کر ڈالا۔ہزاروںبچوں کو یتیم کیا۔دس ہزار لوگوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا۔ان میں سے کئی کی اجتمائی قبریں بھی دستیاب ہوئیں۔
ہزاروں بہنوں اور بیٹیوں کو بیوائوں اور نیم بیوائوں میں تبدیل کر دیا۔ہزاروں لوگوں کو ٹارچر سیلوں میں اپایچ اور معزور کر دیا۔ہزاروں کو ابھی تک قید میں رکھاہو ا ہے۔اس کے باوجود بھارت کشمیریوں کا جذبہ آزادی کو ختم نہیں کر سکا۔٢٠٠٨ء تا ٢٠١٠ء اور ٢٠١٦ء سے جاری عوامی تحریک نے جدو جہد آزادی کو نئی زندگی اور نئی قوت بخشی۔قابض بھارت فوج دنیا کی تیسری بڑی فوج کے سات ہزار سے زیادہ فوجی جموں وکشمیر کی تحریک آزادی کو سفاکیت سے کچلنے کے لیے لگائی گئی ہے۔بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے ۔ جبکہ ان کی مقابلے کے لیے کشمیریوں کے پاس نہ کوئی فوجی طاقت ہے نہ ہی بڑی معیشت ہے نہ وسائل و ذرائع ہیں نہ ہی ذرائع ابلاغ اور نہ ہی میڈیا کی طاقت ہے۔اگر کشمیریوں کے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ اللہ کی رحمت،جذبہ مزاہمت،اللہ پر توکل اور تحریک کی صداقت ہے۔کشمیریوں کا باہمی اتحاد،اعتماد اور غلامی کی ذلت سے آزادی حاصل کرنے کا عزم صمیم ہے۔ کوئی بھی تحریک قربانیوں کے بغیر منزل کی طرف رواں دواں نہیں ہو سکتی۔کشمیر کی تحریک قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔کشمیریوں کے بچوں کو بھارتی سفاک فوج بیلٹ گن چلا اندھا کر رہی ہے۔روز روز کے کرفیو اور ہڑتالوں سے کاروبار ٹھپ پڑ گیا ہے۔پاکستان پہلے کی طرح اب بھی کشمیر کا پشتی بان ہے۔پاکستانی حکومت اورعوام ہر موقعہ پر کشمیر کے لیے آواز اُٹھاتی رہی ہے۔پاکستان نے اخلاقی، سیاسی اور سفارتی سطح پر کشمیر کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے۔
کشمیری قوم اجتماہی طور پرحصول آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ مگر کچھ لوگ ذاتی مفاد ومراعات کے لیے قابض بھارت کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔وہ اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ میں شریک ہیں ان کو رک جانا چاہیے۔یہ لوگ ملی تشخص کے مٹانے کے درپے ہیں۔ان کے لیے ا بھی موقعہ ہے کہ اس سے باز آجائیں اور اپنی ملت کے ساتھ شامل ہو کر جنگ آزادی لڑیں ورنہ تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔کشمیر کے ریاستی ملازم چند ٹکروں کی نوکری کے لیے انصاف کا دامن نہ چھوڑیں اور ظالم اور مظلوم کی اس جنگ میں اپنے مظلوم بھائیوں کے ساتھ شریک ہو جائیں۔سفاک بھارتی برہمن کی نوکری کے بعد ان کو وہ ردی کی ٹوری میں پھینک دیا جائے گا۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اول آخرجمو ں و کشمیر کے باشندے ہیں۔ بھارت ان کی ریاست کی نسل کشی کر رہا ہے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوششوں پرعمل پیرا ہے۔کشمیر کے لیے بھارت کے آئین میں کشمیر کی خصوصی حیثیت دفعہ ٣٧٠ کو تبدیل کرنے کی آرایس ایس کی لیڈر شپ ہمیشہ مصروف رہی ہے۔ بی جے پی کی سرپرست دہشت گرد تنظیم راشٹریہ سوامی سیکوک سنگ(آر ایس ایس) سے وابستہ ایک تھینک ٹینک نے سپریم کورٹ میں رٹ دائر کی ہے جس میں شق٣٥۔ اے کو نشانی بنایا گیا ہے۔عدالت نے سماعت کے لیے درخواست منظور بھی کر لی ہے ایک اسپیشل بینچ قائم کر کے اس کی سماعت چند ہفتوں میں شروع ہونی ہے۔دفعہ ٣٥۔اے کے تحت جموں و کشمیر میں غیر ریاستی باشندوں کے نوکری حاصل کرنے، ووٹ دینے اور غیر منقولہ جایداد خریدنے پر پابندی عائد ہے۔اگر یہ ختم کر دی گئی تو یہ ٣٧٠ کے ختم کرنے سے بھی خطرناک ہو گا۔جبکہ اس قسم کی شقیں ناگالینڈ، میزور رام، سکم،ارونا پردیش،آسام ، منی پور،آندھرا پردیش اور گوا کو خاص اور منفرد حیثیت عطا کرتی ہیں۔ان ریاستوں میں بھی غیر لوگوں کو غیر منقولہ جایداد خریدنے کی پابندی ہے ۔اس کے لیے خصوصی اجازت لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔مسلم دشمنی اور متعصب ذہنیت کے حامل افراد کو بھارتی آئین میں یہ شقین نظر نہیں آتیں۔ مرکزی حکومت جو ان کی نگران اور محافظ ہے سپریم کورٹ میں اس شق کا دفاع کرنے کے بجائے غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا۔ دو سال یہ شق التوا میں ہے۔
موجودہ وزیر خزانہ نے تعصب میں کہا تھا کہ ”کشمیر کاواحد مسئلہ اس کا مسلم اکثریتی کردار ہے۔اور بھارتی آئین میں اس کی خصوصی پوزیشن نے اس کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ان کے مطابق کشمیر کی ترقی میں بھی یہ شق حائل ہے۔دیگر علاقوں کے لوگ کشمیر میں بس نہیں سکتے جس کی وجہ سرمایا کاری نہیں ہو سکتی”۔آر ایس ایس کے لیڈر کہتے رہتے ہیں کہ مسلمان جہاں بھی تھوڑی اکثریت میں ہوتے ہیں وہ اپنی شناخت کیوں الگ رکھنا چاہتے ہیں ان کی اولین شناخت بھارتیہ ہونی چاہیے اس کے کلچر کو ترجیح ہونی چاہیے۔یاد رہے کہ یہ شقیں جب کشمیر پاکستان میں شامل ہونا ممکن تھا تو برہمنوں اور ڈگرہ سبھا کی ایما پر ١٩٢٧ء میں مہا راجہ نے یہ قانون نافظ کیا تھا۔جس کی روسے اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی غیر ریاستی شخص ریاستی حکومت میں نہ ملازمت کا حق دار ہو گا اور نہ غیر منقولہ جایداد رکھنے کا مجاز ہو گا۔ یہ شقیں آئین میں اپنی ہندو اقلیت کے تحفظ کے لئے رکھیں تھیں جو اللہ کا کرنا کہ اب کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں ہیں۔دفعہ ٣٥۔ اے در اصل بھارتی آئین کی دفعہ٣٧٠ کی ہی ایک توسیع اور توضیع ہے۔بھارت کی ١٩٦٠ء تک تھی یہ پالیسی تھی کہ کشمیریوں کو حق خدارادیت دی جائے گی۔ کشمیر بھارت میں ضم نہیں ہوئی تھی اس لیے آرٹیکل ٣٧٠ کشمیر اور بھارت کے درمیان ایک مقدس معاہدہ ہے جس کی کسی شق پر دونوں میں کوئی بھی یک طرفہ ترمیم نہیں کر سکتا۔١٩٥١ء کے انتخابات میں بھارت کی کلی کھل تھی۔تمام امیدوار بلا مقابلہ جیت گئے۔
اسی اسمبلی سے ریاست کے دستور وضع کیا گیا تھااور جعلی الحاق کی دستاویز کی توثیق گئی تھی۔یہ بھی سوال تھا کہ اس اسمبلی کے لیے لوگوں نے صرف پانچ فی صد ووٹ ڈالے تھے۔ اس نامکمل اسمبلی کا پول یہ کہہ کرانٹیلی جنس کے اس وقت سربراہ بی این ملک نے کھول دیا تھا کہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مستردد کر دیے گئے تھے۔ دراصل میں بھارت میں ہندوانتہا پسند حکومت کے قیام کے سرخیل دہشت گرد تنظیم آئی ایس ایس کے بنیادی رکن دہشت گرد مودی حکومت مسلمانوں کی ریاست اورکشمیریوں کے تشخص اور انفردیت کو پامال کرنے کے حوالے سے جنگ آزمائی کے راستے پر چل پڑی ہے۔اس لیے کا توڑ کرنے کے لیے موجودہ کشمیری لیڈروں کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے جوان کے لیے انتہائی ضرورت ہے۔جموں و کشمیر کی موجودہ جاری تحریک تکمیل پاکستان مکمل آزادی تک جاری رہے گی انشاء اللہ۔