تحریر: بیگم صفیہ اسحاق کشمیریوں پر مظالم کی نہ رکنے والی داستان جاری ہے اور یہ حقیقت اب پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہے کہ سات لاکھ بھارتی فوج کے مظالم کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کے جذبہ حریت کو کچلا نہیں جا سکا۔ ظلم کے ہر وار کے ساتھ بھارتی تسلط سے آزادی کا عزم پُختہ ہو رہا ہے۔ سات دہائیوں سے کشمیریوں کو غلام بنائے رکھنے کے تمام تر حربوںکے باوجود اپنے حقوق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے والے سرفروشوں کا قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آزادی کے کارواں کی باگیں اب کشمیریوں کی تیسری نسل نے سنبھال لی ہیں۔
برہان وانی کی شہادت کشمیریوں کی تحریک کو ایک فیصلہ کن موڑ تک لے آئی ہے۔ معصوم لوگوں کے سینے چھلنی کرنے، اُن کے چہرے مسخ کرنے اور اُنہیں اندھا کرنے سے اس تحریک کا راستہ نہیں روکا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت دیوار پر لکھی نظر آ رہی ہے کہ بھارت کشمیریوں کو اُس حق سے محروم نہیں رکھ سکتا جس کا وعدہ اُس نے ساری دنیا سے کر رکھا ہے اور جس کی ضمانت پوری عالمی برادری نے دے رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں آج بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہیں۔
کشمیریوں کے لہو نے اُن قراردادوں کو پھر سے تازہ کر دیا ہے۔ عالمی برادری کو سوچنا ہو گا کہ سات دہائیوں تک ان قراردادوں کو نظر انداز کرنے کے کیا نتائج نکلے ہیں؟ کشمیر مسلسل آتش فشاں کی طرح سلگ رہا ہے۔ امن و سلامتی کی دعویدار عالمی قوتوں پر لازم ہے کہ وہ ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کابلا تاخیر اہتمام کریں تاکہ اقوام متحدہ عالمی امن کے محافظ ادارے کے طور پر اپنی ساکھ برقرار رکھ سکے۔اہل ِکشمیر کے ساتھ پاکستان کے تاریخی، جغرافیائی، مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور معاشی رشتوں کی تاریخ بہت پُرانی ہے ۔ پاکستان نے اُن کے حقِ استصواب رائے کے لئے ہر ممکن اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کا عہد کر رکھاہے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی اپنا یہ عہد نبھایا، آج بھی اُس عہد کی پاسداری کر رہے ہیں۔ ہمارے لیے یہ محض مظلوم کشمیریوں کی حمایت ہی کا نہیں، انسانی حقوق کی سنگین پامالی، عالمی اداروں کی توہین اور امن عالم کو درپیش خطرات کا معاملہ بھی ہے۔
اگر اقوام متحدہ کے فیصلوں کو پائوں تلے روندنے ، عالمی رائے عامہ کو ٹھکرانے اور طاقت کے زور پر انسانوں کو غلام بنانے کی روایت چل نکلی تو اپنے آپ کو مہذب کہلانے والی دنیا ہزاروں سال پیچھے چلی جائے گی اور تہذیب کا سارا سفر برباد ہو کر رہ جائے گا۔کشمیر کے بہادر فرزند برہان مظفر وانی کے خون سے روشن ہونے والی شمع آزادی نے بھارت کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ طاقت کے بجائے اس معاملے کو دنیا سے کئے گئے وعدوں کے حوالے سے دیکھے۔ بھارت کے راہنما کئی سالوں تک دنیا کو یقین دلاتے رہے کہ وہ ہر حال میں قراردادوں پر عمل کریں گے اور کشمیریوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیں گے۔
Nawaz Sharif
اب اس عہد کو بُھلا دیا گیا ہے۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے کر اقوام متحدہ ہی نہیں پوری عالمی برادری کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے۔ بار بار بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن بھارت کے منفی روّیے نے ہماری ان کوششوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ بار بار بات چیت کا سلسلہ ٹوٹتا رہا۔ بار بار مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں اور بار بار پُر امن حل کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج نہ صرف جنوبی ایشیاء کا امن خطرے سے دوچار ہے بلکہ دنیا بھی اس معاملے کی تپش محسوس کرنے لگی ہے۔ حکومت نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے موثر کوششوں کو ہمیشہ اپنی اہم ترجیح رکھا ۔ موجودہ دورِ حکومت میںا قوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تین بار خطاب کے دوران وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ 21 ستمبر کو اپنی حالیہ تقریر کے دوران وزیر اعظم نے کہا کہ” مسلسل کشیدگی اور تصادم کی فضا جنوبی ایشیاء کا مقدر نہیں بننی چاہیے۔
جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے نہ تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں ۔کشمیریوں کی ایک نئی نسل بھارتی تسلط سے نجات کے لیے اُٹھ کھڑی ہو ئی ہے۔ برہان وانی کشمیری انتفادہ کی علامت بن کر اُبھرا ہے۔آزادی کی مقبول اور پُرامن تحریک کے پاس اپنے مقصد پرکامل ایمان اور اپنے موقف کی صداقت کا اسلحہ ہے۔ اُن کے دِلوںمیں آزادی کی تڑپ ہے۔ اس تحریک کو بھارتی فوجوں کی ظالمانہ کارروائیوں سے نہیں روکا جا سکتا۔”وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے تقریر کے دوران چار مطالبات کئے۔مقبوضہ کشمیر میں نہتے شہریوں پر بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کا اہتمام کیا جائے۔بھارتی جیلوں سے کشمیری سیاسی قیدیوں کی رہائی، کرفیو کے خاتمے، زخمیوں کی طبی امداد، اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کی آزادی اور کشمیری راہنمائوں پر عائد بیرونی سفر کی پابندیاں اُٹھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں سے آزادنہ استصواب رائے کا وعدہ کر رکھا ہے ۔ کشمیری 70 سال سے یہ وعدہ پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ جنرل اسمبلی یہ وعدہ وفا کرنے میں اپنا کردارادا کرے اور (4)یہ کہ جموں و کشمیر سے بھارتی مسلح افواج کے انخلاء کے لئے اقدامات کئے جائیں اور استصواب رائے کے لیے ضروری مشاورت کا عمل شروع کیا جائے۔گذشتہ تین ماہ کے دوران حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہایت اہم اور موثر اقدامات کیے ۔ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے رابطہ کر کے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کی طرف توجہ دلائی۔ سیکرٹری جنرل نے انسانی جانوں کے ضیاع کی مذمت کی اور کشمیر سمیت تمام معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ دفتر خارجہ نے سلامتی کونسل کے مستقل رُکن ممالک کے سفیروں کو خصوصی بریفنگ دی۔
United Nations
بیرونِ ملک تمام پاکستانی سفیروں کو میزبان حکومتوں سے فوری رابطے کے لیے ہدایات جاری کی گئیں۔ کشمیری عوام سے یکجہتی کے لیے حکومت کی اپیل پر پوری پاکستانی قوم نے 20 جولائی کو یومِ سیاہ منایاگیا۔ دفتر خارجہ نے یورپی یونین کے سفیر اور او آئی سی کے رابطہ گروپ کے ارکان کو خصوصی بریفنگ دی۔ ایسی ہی بریفنگز افریقی یونین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بھی دی گئیں۔انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو خطوط لکھے گئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے خود اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ، انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ کو خطوط کے ذریعے کشمیریوں پر مظالم کی طرف توجہ دلائی۔ سلامتی کونسل کے مستقل رُکن ممالک (چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ) کے سربراہانِ حکومت و ریاست کو بھی خطوط لکھے اور اُن کی توجہ کشمیرکی صورت حال کی طرف دلائی۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی وزیراعظم پاکستان نے متعدد عالمی رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں کیںاور اُنہیں مسئلہ کشمیر کے پسِ منظر اور موجودہ حالت سے آگاہ کیا۔حکومت پاکستان معاملے کی نوعیت اور سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہے اور سفارتی محاذ پر پوری سرگرمی کے ساتھ کا م کر رہی ہے ۔ لیکن بھارت نے کشمیر میں اپنے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اُڑی کا واقعہ عین اُس وقت پیش آیا جب وزیراعظم جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نیویارک پہنچ چکا تھا۔ معاملے کی تفصیلات سامنے آنے اور کسی بھی طرح کی ابتدائی تحقیق کے بغیر،چند گھنٹوں کے اندر اندر بھارت نے اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال دی۔ اس واقعے کی ٹائمنگ اور پھر فوری طور پر پاکستان کو اس کا ذمہ دارد قرار دینے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اصل عزائم کیا تھے۔
پاکستان نے کھلے دل سے کہا کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائے لیکن کسی ثبوت کے بغیر وہی راگ الاپا جاتا رہا۔ پھر عالمی اخلاقیات کو نظر انداز کرتے ہوئے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ 28 ستمبر کو بھارت نے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے لائن آف کنٹرول سے شدید گولہ باری کی جس سے پاک فوج کے دو بہادر فرزند شہید ہوگئے ۔ اِس بلا جواز اشتعال انگیزی کا فوری طور پر موثر جواب دے دیا گیا۔ اِس کے ساتھ ہی عالمی برادری کی طرف سے رابطے ہوئے۔ پاکستان نے دو ٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں واضح کر دیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے’ اس کے کوئی جارحانہ عزائم نہیں لیکن قومی سلامتی اور ملکی دفاع کے خلاف کسی بھی کاروائی کا سخت جواب دیا جائے گا۔ ہماری بہادرمسلح افواج پیشہ ورانہ مہارت اور شجاعت و بہادری کی تابندہ روایات کے ساتھ ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد ہے۔