تحریر : حفیظ خٹک 2017 کا سال، کشمیر کا سال ہے، مجاہدین کشمیر سے لے کر وہاں کے سبھی بچے، بوڑھے، مرد و خواتین تحریک آزادی کو آخری مراحل تک لے imagesآئے ہیں۔ مجاہدین کی جرائت و ہمت کو دیکھتے ہوئے وہ مائیں ، بہنیں جو اپنے گھروں میں رہتے ہوئے اپنے بچوں سمیت دیگر سبھی مجاہدین کیلئے ہر پل ہر لمحہ دعائیں کیا کرتی تھیں اب وہ اگلی صفوں میں شامل ہوگئی ہیں۔ ان کاہر پل، ہر لمحہ جدوجہد آزادی کی جانب بڑھ رہا ہے یعنی پاکستان کی جانب بڑھ رہا ہے۔ پاکستان سے انسیت و محبت جس قدر شہر قائد سمیت پورے ملک کے عوام کوہے اس سے بڑھ کر کے محبت کشمیری عوام کو پاکستان سے ہے۔ اس بات کو بھارت کی نام نہاد جمہوری سرکار ، اس کا ایک ایک فوجی و دیگر اہلکار سبھی سمجھ چکے ہیں کہ ان کیلئے اب کشمیر کو بزور شمشیر ساتھ رکھنا ، اس دھرتی پر اپنا غاضبانہ قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔
بھارتی حفیہ ایجنسی را کے سابق سربراہ تک نے یہ بات چند روز قبل واضح انداز میں کہہ دی کہ کشمیر جا رہا ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک جس قدر ظلم و بربیرت رکھی گئی جس کے نتائج لاحاصل رہے تاہم وہ آگیا ہے کہ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوجی کشمیر کو اپنے ساتھ اور اپنے دباؤ میں رکھنے کے مجاز نہیں رہے ہیں۔اب کشمیری طالبات بھی بھارتی فوجیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی ہیں ۔ حالیہ آپریشن کے باوجود بھارتیوں کو اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور وہ اپنی چھاونیوں میں کشمیری عوام کے عزائم کے سامنے ٹھہر سکے۔ نام نہاد آپریشن کے باوجود انہیں ہر کشمیری کے چہرے پر آزادی کے ، پاکستان سے انسیت و محبت کے جذبات و احساسات نظر آنے لگے ہیں ۔ اس صورتحال میں وطن عزیز کے حکمرانوں اور ان کے ساتھ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے کشمیریوں کے لئے جو جذبات و احساسات نظر آنے چاہئیں وہ دیکھائی نہیں دیتے۔ حکومت کی کیفیت یہ ہے کہ انہوں نے کشمیریوں کی آزادی کیلئے کام کرنے والی جماعتہ الداوا ء کے امیر کو تین ماہ سے زائد عرصے سے اپنے گھر میں نظر بندکر رکھا ہے ۔ اس پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ چند دن قبل حکومت نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہیں مزید 90روز کیلئے نظر بند رکھا جائے گا۔
حکومت کے اس اقدام سے ان کی جماعت سے کہیں زیادہ دکھ و تکلیف کشمیری عوام کو پہنچی ، حکومت کے اس اقدام کی مذمت ملک کی سبھی جماعتوں نے کی ہے ۔ ان کے ساتھ عوام نے بھی حکومت کے اس اقدام کو ناپسند کیا ہے ۔ عوام کا تو یہ کہنا ہے کہ جب حافظ سعید کے اوپر کوئی مقدمہ نہیں ہے، عوام کو ان سے کوئی شکوہ ، کوئی گلہ نہیں ہے تو ایسے فرد کو کیونکر پابند کیا گیاہے ۔ انہیں اپنے گھر میں بند کر کے حکومت کو کیا فائدہ ہوا ہے۔ ہاں حکومت کے اس اقدام سے بھارتی حکمران ضرور خوش ہوئے ہونگے۔ نواز حکومت کا یہ اقدام بھارتی حکومت سے اپنی پینگیں بڑھانے کا تو سبب بن سکتا ہے لیکن بھارتی حکومت کو ان کی فوج و دیگر سبھی اداروں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ حافظ سعید کے نظر بند ہونے سے آزادی کشمیر کی تحریک کمزور نہیں بلکہ اور تیزی سے بڑھتی جارہی ہے اور وہ وقت دور نہیں کہ جب کشمیر بھارت سے نکل کر پاکستان کی جانب آجائیگا۔ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ مکمل ہونے کو جارہا ہے ، مجاہدین کے جنازوں میں پاکستانی پرچم نظر آتے ہیں، یہ اور اس کے ساتھ کشمیری عوام کا ہر جذبہ اس بات کاعکاس ہے کہ جدوجہد آزادی تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور کامیابی ان کی منتظر ہے۔
Kashmiris Freedom
حکوت پاکستان کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ بھارت کس انداز میں ملک کے اند ر اور اطراف سے بھی پاکستان میں اپنے مذموم مقاصد کیلئےdownload کاروائیاں کر رہا ہے۔ افغانستان میں بھارتی حکومت کے بے جا دلچسپی اور اس کے ساتھ کاروائیاں بڑھ رہی ہیں ۔ بھارتی سرکارنے افغانی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف اقدامات شروع کر دیئے ہیں ۔ چمن کے قریبی سرحد پر رونما ہونے والا واقعہ اس کی واضح مثال ہے جس میں افغان فوجیوں نے پاکستان کی حدود میں کاروائی کی اور جس کے نتیجے میں متعدد پاکستانی شہید و زخمی ہوئے۔ یہ چال بھارت کی ہے اوروہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کو اندورنی اور بیرونی طور پر مسائل میں الجھا کر اسے پریشان کرئے اور اس کے ساتھ کشمیر کی کسی بھی طرح سے حق و خودارادیت کی حمایت نہ کرئے ۔ لیکن بھارتی سرکار سمیت افغانی حکومت بھی اس بات کو ذہن نشین کر لے کہ پاکستان کی عوام ان کی کسی بھی چال اور سازشی منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دینگے ۔ پاکستانی عوام بڑھ کر اپنے ملک کی حفاظت کریں گے اور کشمیریوں کی بھی ہر طرح سے مدد ان کی آزادی تک جاری رکھیں گے۔