تحریر : علی عمران شاہین بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) سے 1947 یا اس کے بعد تقسیم ہند کے باعث بھارت جانے والے ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں بسانے کے لئے باقاعدہ طور پر اقامتی سرٹیفکیٹ (ڈومیسائل) جاری کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ تازہ ترین حقائق سے پتہ چلا ہے کہ بھارت گزشتہ چار ماہ سے یہ کام کر رہا ہے اور اب اس کا انکشاف ہوا ہے جس کے خلاف اب کشمیری قوم ایک بار پھر برسرمیدان ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد جو تحریک شروع ہوئی تھی کہ بھارت نے کشمیریوں کے خلاف نئی جنگ چھیڑ دی ہے۔ بے پناہی ظلم سہتی لہولہان کشمیری قوم جس کے 10 ہزار نونہال حال ہی میں جیلوں میں ڈالے گئے ہیں، کی جانب سے ایک بار پھر ہڑتالیں کی جا رہی ہیں، زبردست مظاہرے بھی ہو رہے ہیں اور دھرنے بھی جاری ہیں۔
پتہ یہ چلا ہے کہ نئی دہلی سے کٹھ پتلی ریاست کو ماہ اگست 2016ء میں ایک حکم نامہ موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں بسنے والے ان ہندو خاندانوں کو ریاست کے اقامتی سرٹیفکیٹ جاری کر دیئے جائیں جو وہاں عرصہ دراز سے رہائش پذیر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 19960ایسے خاندان رہائش پذیر ہیں۔ ان لوگوں کی تنظیم کے صدر لوبھا رام گاندھی نے بھارتی حکومت سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ ان لوگوں کو یہاں رہنے کے لئے باقاعدہ طور پر نہ صرف قانونی رہائشی دستاویزات دی جائیں بلکہ فوری طور پر مستقل شہریت اور ووٹ کا حق بھی دیا جائے۔ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے باعث دونوں اطراف (آزاد و مقبوضہ) یہ قانون اول دن سے رائج ہے کہ یہاں کی مستقل سکونت کوئی غیر ریاستی فرد حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہاں کی جائیداد خرید سکتا ہے۔
بھارت نے جب شیخ عبداللہ کے ساتھ بھی معاہدہ کیا تھا تو اس میں اس شق کو اس وقت مزید مضبوط کیا گیا تھا۔ اس وقت بھارت نے اپنے آئین کے اندر دفعہ 370شامل کی تھی جس کے تحت بھارت کو مقبوضہ کشمیر کا صرف دفاع، کرنسی اور خارجہ امور سنبھالنے کا اختیار ملا تھا لیکن بھارت نے ہمیشہ اسے بھی پائوں تلے روندا۔ اول وقت سے ریاست بھارت کے ہاتھوںپائی پائی کی محتاج ہے۔ بھارت نے یہاں کبھی کوئی صنعت نہ لگنے دی کہ کشمیری ہمیشہ بے روزگار رہیں اور اگر روزگار اختیار کرنا چاہیں تو انہیں بھارت کے اندر جانا اور اس کا ہی محتاج ہونا پڑے۔ یہ تو کشمیر کا قدرتی حسن اور کشمیری قوم کی محنت و مہارت تھی کہ دنیا بھر سے لوگ یہاں سیروسیاحت کیلئے آتے اور سیاحت سب سے بڑی حرفت بنی۔ گھریلو دستکاریوں نے دنیا بھر میں پہلے سے ہی شہرت حاصل کر رکھی تھی جو کشمیریوں کے روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی۔ بھارت نے کشمیریوں کی ساری گھریلو صنعت کو بھی پوری محنت اور طویل سازش کے ساتھ تقریباً ختم ہی کر ڈالا ہے۔ سیاحت کے حالات بھی دنیا کے سامنے ہیں، مقبوضہ کشمیر کی سڑکیں اس قدر خستہ حال ہیں کہ خدا کی پناہ۔ اس سال عین سیاحتی سیزن میں کشمیری قوم کے ہر دلعزیز نوجوان جہادی رہنما برہان مظفر وانی کی دو ساتھیوں کے ہمراہ شہادت کے بعد جو احتجاجی و آزادی کی تحریک چلی تھی وہ اب تک جاری ہے۔ اس تحریک میں سیاحتی سیزن ختم ہو کر رہ گیا اور کشمیریوںکو ہر روز اربوں کا نقصان اب تک ہو رہا ہے۔ بھارت کی اول دن سے کوشش ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی مذہبی مسلم اکثریت کو کسی طرح ختم کر دے تاکہ وہ مسئلہ کشمیر میں آخری کیل ٹھونک دے کہ اب تو مذہبی بنیاد پر تقسیم یا استصواب رائے کا سوال ہی ختم ہو چکا ہے۔
Indus Water Agreement
اس سازش کے تحت اس نے جموں میں بے پناہ قتل عام کیا تھا اور وہاں کی مسلم اکثریت کو بھگا کر نسبتاً اقلیت میں بدل ڈالا تھا۔ بھارت اب اس بات کا دعویدار ہے کہ جموں تو اب ہندو اکثریتی ہے وہ یہ کھیل مقبوضہ وادی کے ساتھ بھی کھیلنا چاہتا ہے کیونکہ 1947ء کے بہت بڑے قتل عام اور مسلمانوں کو علاقہ بدر کرنے کے باوجود وہ اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ اس سازش کے تحت کبھی امرناتھ یاترا کے نام پر زمین کی خریداری اور ہندوئوں کو الاٹمنٹ کا تماشا ہوتا ہے، کبھی جگہ جگہ نئی سے نئی ہندو یاترائیں شروع کرنے کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے، کبھی ریٹائرڈ فوجیوں اور کبھی ہندو پنڈتوں کیلئے الگ بستیاں بسانے کی کوشش ہوتی ہے۔ سلام ہوکشمیری قوم پرجس نے ہر لحاظ سے بھارت کا تو بلاخوف مقابلہ کر کے دکھایا ہے اور بھارت کو ہر موقع پر اوندھے منہ گرایا ہے۔ افسوس تو اس نام نہاد عالمی برادری اور عالمی اداروں پر ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ہی فیصلے سناتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے خلاف پاکستان عالمی سطح پر ایک بڑی مہم کا آغاز کرے۔ بھارت کی پاکستان کے خلاف سازشوں کا کوئی اندازہ کرنا ہو تو اس کی ہر موقع پر کھلی وارداتوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ بھارت نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اب پاکستان کے حصے کے تین مغربی دریائوں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کا بھی زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کرے گا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اس سے پہلے کئی بار کہا ہے کہ وہ ”اپنے ملک” کا پانی پاکستان کو نہیں دے سکتے۔
کیا ہم، ہماری قوم اور ہمارے ارباب اقتدار و اختیار نے سوچا ہے کہ یہ پانی آخر کیسے ہمیں ملے گا۔ پاکستان کے اعلیٰ حکام کب تک ورلڈ بینک کے پائوں پکڑتے رہیں گے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ورلڈ بینک کوئی ایسا فورم نہیں ہے کہ جو اس طرح کے مسائل حل کرے لیکن جب اس نے یہ مسئلہ آگے بڑھانے سے انکار کر دیا ہے تو ہمیں اب یہ اپنی جنگ خود لڑنا ہو گی۔ دنیا میں اپنے اتحادی بنانا ہوں گے۔ بھارت نے چناب پر جتنے چاہے اور جیسے چاہے ڈیم بنا لئے اور ہم محض باتیں کرتے یا مطالبات کے نعرے لگاتے رہ گئے۔ اب اس نے یہ سلسلہ مزید آگے بڑھانا شروع کر رکھا ہے۔ اس نے دریائے نیلم کا پانی بھی 27کلو میٹر زیرزمین سرنگ کھود کر دریائے جہلم میں ڈال دیا۔ ہم کہتے رہے کہ وہ دس فیصد سے زیادہ پانی یوں ادھر سے ادھر نہیں کر سکتا لیکن بھارت کو نہ ہم روک سکے نہ کوئی عالمی بینک اور نہ کوئی دیگر معاہدہ۔ اس کو اگر کوئی روک سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف پاکستان کا راست اقدام ہی روک سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک عجیب سی کیفیت بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ ہمارے ملک کا کھانے، پینے اور یہیں سے سب کچھ پانے کمانے والے چند لوگ قوم کو اس مسئلہ پر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں بھارت کے سامنے سرنگوں ہو جانا چاہئے۔ جیسا وہ کہتا ہے اسے حالات کا جبر، بھارت کی علاقائی و بین الاقوامی طاقت اور حیثیت تسلیم کر کے دل و جان سے قبول کر لینا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ایسی باتیں کر کے پاکستان میں باعزت زندگی بھی گزار رہے ہیں۔
انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ بھارت ہمیں کسی حال میں بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ بھارت نے تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے اوپر بے شمار دیگر حملوں کے ساتھ ایک بڑا حملہ پانی بند کر کے کیا تھا اور پھر ہمیں اس سے باقاعدہ کئی سال تک پانی خریدنا پڑا تھا۔ بھارت نے اپنے ہاں سے آنے والے مسلمان مہاجرین کا جتنے بڑے پیمانے پر قتل کروایا تھا وہ بھی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ایک باب ہے۔ اسے اس سارے ظلم کی کیا ضرورت تھی لیکن وہ اس سے باز نہیں آیا تھا۔ اس نے تو ہمارے حصے میں آنے والا خزانہ، ہمارے حصے کی صنعت و حرفت، ہمارے حصے کا گولہ و بارود تک دبا لیا تھا لیکن ہم اسے کچھ نہ کہہ سکے۔ اس وقت بھارت کو یہ سب کرنے پر کس نے مجبور کیا تھا۔ جواب ایک ہی ہے کہ پاکستان اور اسلام دشمنی نے، اور یہ دشمنی کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتی۔ البتہ ہم اپنا حق لینے میں جتنی تاخیر کریں گے یہ ہمارے لئے ہی نقصان دہ اور پریشان کن ہو گا۔ خدارا ،اب بھارت کے ان سارے معاملات پر یکسو ہو جایئے، قوم کو ایک بنایئے، دشمن کے خلاف سینہ سپر ہو جایئے۔ جب پاکستان محفوظ ہو گا تبھی ہمارا سب کچھ اپنا و محفوظ ہو گا اور یہ ملک کشمیر کی آزادی سے ہی مکمل محفوظ ہو گا۔