کشمیر میں اخبارات اور ٹی وی پر بھی قدغن

Kashmir

Kashmir

کشمیر (جیوڈیسک) آٹھ روز سے جاری مکمل محاصرے کے دوران انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اب تک چالیس سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ڈیڑھ ہزار زخمی ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

معتبر انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ’سنیچر کی صبح پولیس نے سرینگر سے شائع ہونے والے سبھی بڑے اخبارات کے دفاتر پر چھاپہ مار کر اخبارات کو ضبط اور چھاپہ خانوں کو مقفل کر دیا۔

اس دوران کیبل ٹی وی نشریات کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ سنیچر کو علی الصبح پولیس نے ہمارے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ ہمارے اردو روزنامہ کشمیر عظمی کی پچاس ہزار کاپیاں ضبط کرلیں اور چھاپ خانے کو سیل کردیا، اور گریٹر کشمیر کی چھپائی روک دی۔‘

انگریزی روزنامے رائزنگ کشمیر، کشمیر آبزرور، کشمیر مانیٹر اور دوسرے معتبر اخبارات کے دفاتر پر بھی پولیس نے چھاپے مار کر ان کی اشاعت روک دی ہے۔
کیبل ٹی وی کی نشریات بھی بند کردی گئی ہے۔ گذشتہ کئی روز سے بعض بھارتی نیوز چینلز کے خلاف عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ چینلز کشمیر کی خبروں کو توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں۔ بھارت بھر میں سول سروس امتحانات میں اول درجہ حاصل کرنے والے اعلیٰ افسر شاہ فیصل نے ان چینلز پر تنقید کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا ’جب حکومت اپنے ہی شہریوں کو لہولہان کرتی ہو اور ٹی وی چینلز حقائق کو مسخ کرتے ہوں اور حالات بحال کرنے میں مشکلات قدرتی امر ہے۔‘

محکمہ اطلاعات کے سابق سربراہ فاروق رینزو کا کہنا ہے کہ میڈیا، ٹیلی فون سروس اور ٹی نشریات کو معطل کرنے کا مطلب ہے کہ کشمیر میں ایمرجنسی نافذ ہے۔ ’آئین میں اس سب سے مطلب ہے کہ یہ ایمرجنسی ہے۔ پھر حکومت ایمرجنسی کا اعلان کیوں نہیں کرتی۔‘

موبائل فون اور انٹرنیٹ پر پہلے ہی پابندی ہے اور وادی بھر میں سخت ترین کرفیو نافذ ہے۔ اس وسیع محاصرے کے دوران لوگوں کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے۔

واضح رہے آٹھ جولائی کی شام کو پولیس نے دعویٰ کیا کہ جنوبی کشمیر کے کوکر ناگ علاقہ میں مقبول مسلح کمانڈر برہان وانی کو دو ساتھیوں سمیت ہلاک کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد جنوبی کشمیر میں پرتشدد مظاہروں کی لہر پیدا ہوگئی اور جگہ جگہ فورسز کی فائرنگ کے باوجود برہان کے جنازے میں دو لاکھ لوگوں نے شرکت کی۔
مظاہروں کی لہر اب سرینگر اور شمالی قصبوں تک پہنچ گئی ہے۔

جمعرات کو شمالی کشمیر کے پٹن اور کپوارہ میں مظاہرین پر فورسز کی فائرنگ میں ایک نوجوان ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ ہسپتال ذرائع نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد چالیس سے تجاوز کرچکی ہے۔ ڈیڑھ ہزار زخمیوں میں سو سے زائد ایسے افراد ہیں جن کی آنکھوں میں پیلیٹس یعنی چھرّے لگے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے پچاس ہمیشہ کے لئے بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔

حکومت کی ہند کی ہدایت پر تین ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل ایک ٹیم نے کشمیر کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران ڈاکٹروں نے بتایا کہ زخمیوں کی حالت سے لگتا ہے کہ کشمیر میں جنگ جیسی صورتحال ہے۔

دریں اثنا حکومت کی بار بار اپیلوں کے باوجود حالات شدت اختیار کررہے ہیں۔ علیحدگی پسند رہنماؤں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر اور یاسین ملک نے مشترکہ بیان میں پیر کی شام تک ہڑتال جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔

کشمیر کے حالات سے متعلق پاکستان، ایران، امریکہ، اقوام متحدہ اور رابطہ عالم اسلامی نے تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مظاہرین کی ہلاکتوں کا سلسلہ بند کرنے کی اپیل کی ہے۔