تحریر: ممتاز حیدر وزیراعظم محمد نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ مظالم اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو دنیا کے کلیدی حصوں میں اجاگر کرنے اور کشمیر کاز کی لابنگ کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کر دیا ہے۔ جن اراکین کو ایلچی مقرر کیا گیا ہے ان میں (برسلز) کیلئے اعجاز الحق اور ملک عزیر، چین (بیجنگ) کیلئے خسرو بختیار اور عالم داد لالیکا، فرانس (پیرس) عائشہ رضا فاروق اور رانا محمد افضل خان، روسی فیڈریشن (ماسکو) کیلئے رضا حیات ہراج، جنید انور چودھری اور نواب علی وسان، سعودی عرب (ریاض، جدہ) کیلئے مولانا فضل الرحمن، میجر (ر) طاہر اقبال اور محمد افضل کھوکھر، ترکی (انقرہ) کیلئے محسن شاہ نواز رانجھا اور ملک پرویز، برطانیہ (لندن) کیلئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور قیصر شیخ، امریکہ (واشنگٹن ڈی سی) اور اقوام متحدہ (نیویارک) کیلئے مشاہد حسین سید اور شذرہ منصب علی، اقوام متحدہ (جنیوا) کیلئے اویس لغاری اور جنوبی افریقہ (پریٹوریا) کیلئے عبدالرحمن کانجو شامل ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ انہوں نے کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے ان ارکان پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ان خصوصی نمائندوں کو پاکستان کے عوام کی طاقت اور لائن آف کنٹرول کے آر پار کشمیری عوام کی دعائیں حاصل ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کے مینڈیٹ اور حکومت کی حمایت کے بھی حامل ہیں۔ ہم اقوام متحدہ کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا دیرینہ وعدہ یاد دلائیں گے، یہ واضح کریں گے کہ یہ بھارت ہی تھا جس نے تنازعہ کشمیر پر کئی عشروں قبل اقوام متحدہ سے رجوع کیا لیکن وہ وعدہ پورا نہیں کر رہا۔ کشمیریوں نے نسل در نسل صرف اور صرف ٹوٹے ہوئے وعدے اور بے رحم ظلم و استبداد دیکھا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ حل نہ کرنا اقوام متحدہ کی مسلسل ناکامی ہے، اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہم کشمیر کاز میں کسی تساہل یا نرمی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ارکان پارلیمینٹ پر مشتمل خصوصی وفود کا قیام سفارتی،اخلاقی اور سیاسی سطح پر کیا جانے والا اب تک کا بہترین اقدام ہے ۔آزادجموں وکشمیر اور گلگت بلتستان کی سینئر قیادت ،ارکان پارلیمینٹ اور حریت قائدین کو بھی ان وفود میں شامل کیا جانا چاہئے۔
مسئلہ کشمیر پر اس وقت جس پیشرفت کی ضرورت ہے اس کا ادراک کرتے ہوے وزیر اعظم پاکستان نے انتہائی صا ئب فیصلہ کیا ہے۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں کی ہیں اور اب بھی وہاں کرفیو جاری ہے جس سے وہاں مقیم باشندوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں ۔ نواز شریف نے اس سے قبل زخمی کشمیریوں کے لیے علاج معالجے کی سہولتوں کی پیشکس کر کے بھار ت کو سفارتی محاذ پر تنہا کر دیا تھا اب خصوصی وفود کا قیام بھارت کو عالمی میدان میں تنہا کرنے کا درست اقدام ہے ۔ آج کی دنیا دلائل کی بات مانتی ہے ،اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں کو صرف بات چیت اور حقائق کے ذریعے ہی قائل کیا جا سکتا ہے ۔وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں کے سامنے پیش کرنے کے لئے 22 ارکان پارلیمنٹ کو نامزد کرنے کی خبر نے بھارت کو پریشان کر دیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے وزیراعظم پاکستان کی طرف سے کشمیریوں کے مسئلہ کو اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں میں پیش کرنے کے فیصلہ کو بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس اپنی صفحہ اول کی خبر کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کی سرخی میں کہا ہے کہ پاکستان بھارت کو کشمیر کے مسئلہ پر انگیخت کر رہا ہے۔
Kashmir Issue
بھارت کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ اور بھارت کے نامور صحافی ایم جے اکبر نے وزیراعظم نواز شریف کے کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی مسئلہ نہ بنائے۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ معاملہ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر حکومت پاکستان کے تمام ادارے ایک صفحہ پر ہیں، تحریک آزادی کشمیر کیلئے جدوجہد کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ، او آئی سی سمیت تمام عالمی فورمز پر اٹھانے کیلئے موثر انداز میں کام کر رہا ہے، بھارت ظلم و استبداد کے ذریعے زیادہ عرصہ تک کشمیریوں کے حق آزادی کو سلب نہیں کر سکتا۔ بھارت نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ آزادی کی جدوجہد کودہشت گردی کے ساتھ جوڑے، تمام بین الاقوامی اداروں نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کے موقف کو مسترد کردیا ہے۔
دنیا بھر میں موجود پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی سفارتکاری کا کردار اداکرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کریں۔ 8 جولائی کے واقعہ کے بعد وزیراعظم محمد نوازشریف نے انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اقوام متحدہ کو خطوط لکھے تاکہ کشمیر کی ا صل صورتحال سے دنیا کو آگاہ کیا جاسکے جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہو۔پاکستان کے سفیروں نے اپنی میزبان حکومتوں کے سامنے بڑے موثر انداز میں کشمیر پر موقف پیش کیا ہے۔ قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپنے تمام ہم منصبوں کو خطوط لکھے ہیں تاکہ دنیا کے سامنے بھارت کا ظلم و بربریت ظاہر کیا جا سکے جو وہ کشمیریوں کو حق خودارادیت سے دور رکھنے کیلئے کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کا سیاہ چہرہ بے نقاب کرنے کیلئے وزارت خارجہ کو مزید جارحانہ اور موثر کردار ادا کرنا چاہئے۔
کشمیر کی تازہ ترین صورتحال پر قومی اسمبلی کا فوری اجلاس طلب کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیریوں کو موجودہ صورتحال میں تنہا نہ چھوڑا جائے جو نامساعد حالات میں بھارت کے ظلم و بربریت کو برداشت کرتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور انسانی حقوق کے علمبردار اداروں کو مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی کشمیر پالیسی میں اب ایک تسلسل نظر آرہا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ قائداعظم کشمیر کے بارے میں بہت واضح تھے، وہ چاہتے تھے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت دیا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی سے فیصلہ کر سکیں کہ انہیں کس کے ساتھ رہنا ہے۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کو موثر انداز میں پیش کرنے کیلئے حکومت پارلیمنٹرین پر مشتمل خصوصی نمائندے دنیا کے اہم ممالک کی طرف بھیج رہی ہے جوکہ ان ممالک کا دورہ کر کے وہاں کی عوام اور عوامی نمائندوں کے درمیان مسئلہ کشمیر سے متعلق رائے عامہ ہموار کرنے کا کام کریں گے جس سے اس مسئلے سے متعلق عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بے پناہ مدد ملے گی’ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اپنے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کشمیر میں ہونے والے انسانیت سوز مطالم کا سخت نوٹس لے۔
Funeral of Burhan Muzzafar Wani
برہان وانی کی شہادت کے بعد شروع ہونے والے پر تشدد واقعات تھمنے کو نہیں آ رہے اور آج 50دن سے زیادہ گزرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کی عوام کرفیوکی حالت میں زندگی گزار نے پر مجبور ہیں۔اس مہذب دور میں عوام پر چھرے والی بندوقوں سے اُن کی آنکھوں کا نشانہ بنانے کے واقعات کس جمہوری ملک میں ہوتے ہیں، بلکہ بد سے بدترین آمریت میں بھی اس قسم کے انسانیت سوز اقدامات سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ بھارت کشمیریوں کے حوصلے کو پست کرنے اور اُن کو پرامن تحریک آزادی کے راستے سے روکنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما چکا ہے اور ان تمام انسانیت سوز اقدامات میں سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پرامن تحریک آزادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ طاقت اور جوش جذبہ پیدا ہو رہا ہے اور آج نہتے کشمیر ی عوام 8 لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی کے باوجود پاکستانی پرچم تھامے پاکستان سے وابستگی کا کھلا اظہار کر رہے ہیں۔
پاکستان کی موثر سفارت کاری کے باعث بھارت پر عالمی دبائو میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے اور خود بھارت کے اندر سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انسانیت سوزمظالم کے خلاف اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ ا کیسویں صدی کے اس مہذب دور میں دنیا کی کسی طاقت کیلئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ طاقت کے بل بوتے کسی دوسری قوم کو محکوم رکھ سکے۔ بھارت چاہے لاکھ ہتھکنڈے اپنا لے اُسے آخر کار کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے عین مطابق استصواب رائے کا حق دینا پڑے گا۔