تحریر: عتیق الرحمن۔ اسلام آباد قیام پاکستان کی تحریک میں مسلمانوں نے بیش بہا قربانیاں دی ں جس کے نتیجہ میں ارض پاک حاصل ہوا ۔متحیر امر یہ ہے کہ پاکستان کو معرض وجود میں اڑسٹھ برس بیت گئے مگر مسلم اکثریتی علاقے آزاد بھی نہیں ہوئے اور نہ ہی ملک پاک کا حصہ بنے ،جن میں کشمیر، حیدرآباد دکن سمیت متعدد علاقوں پر ہندوستان قابض ہے۔ انیس سو سنتالیس کے بعد مسئلہ کشمیر پر اختلاف رائے کے نتیجہ میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین جنگ بھی ہوئی جس کے نتیجہ میں پاکستان کے بہادر و غیور سپاہیوں نے کشمیر کا نصف حصہ حاصل کرلیا تھا مگر اس کے بعد بزدل ہندوستانیوں نے جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو ثالثی کیلئے طلب کیا۔
اقوام متحدہ نے ہندوستان کے مطالبہ پر ثالثی کے فرائض کو اداکرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر قرارداد منظور کی ہیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہندوستان نے ابتدا سے ہی اقوام متحدہ کی قرار داد کی خلاف ورزی کی جس کے سبب انہوں نے کشمیر میں اپنی فوج کو غاصبانہ طور پر داخل کیا اور گاہے بگاہے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیا جاتاہے۔کشمیر میں ماں بہن اور بیٹیوں کی عصمتیں تاراج کی جاتی ہیں۔یہاں ایک امر کی جانب اشارہ کرنا لازمی ہے کہ امریکہ ،اسرائیل اور اقوام متحدہ درپردہ ہندوستان کی مدد کررہے ہیں جس کے باعث وہ سرکش و زور آور ہو چکا ہے،اگر ایسا نہ ہوتاتو اقوام متحدہ انڈیا کی انسانیت سوزی اور نام نہاد کی جمہوریت کا لبادہ اوڑ ھ کر کشمیریوں کے حقوق کو غصب کرنے کے ساتھ ان پر آئے روز شب خون مارتارہتاہے۔
اس امر میں شک نہیں ہے کہ برصغیر کے حالات عالم دنیا پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہاں کے حالات کا بہر صورت خوشگوار رہنا دنیا کے تمام ممالک کے لئے ضروری ہے تاکہ کائنات میں امن و امان کی صورتحال یقینی ہوسکے اور مغرب و یورپ کے خواب اقبال تک پہنچ سکیں ۔لیکن یہ سب کچھ اس وقت نہیں ہوسکتاجب تک برصغیر کا اہم و بڑا مسئلہ حل نہ ہو جائے اور وہ مسئلہ کشمیر ہے ،اگر امریکہ و یورپ اور اقوام متحدہ یہ خواہش رکھتاہے کہ دنیا تنزلی و تباہی سے محفوظ رہے اور اس میں امن و آتشی کا دور ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہوئے دونوں ممالک کو بیٹھا کر حل کرائے۔
Hindu Communities in Kashmir
کیوں کہ جب تک جبر و تشدد اور سربریت کا بازار گرم رہے گا اس وقت تک عبث و محال ہے کہ وہاں کے باشندے خاموشی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں اور اپنے جائز حقوق کے لئے بوجہ خوف آواز حق بلند نہ کریں ۔یہاں یہ بات بھی ذکر کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان کشمیر کو مسلم اکثریتی علاقہ سے اقلیتی علاقہ بنانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے کہ وہاں پر ہندو قوموں کو آباد کیا جارہاہے اور ان کی آباد کاری کے اخراجات ہندوستانی حکومت اٹھارہی ہے جو کہ قابل مذمت اور باعث تشویش امر ہے۔
روزنامہ کشمیر ٹائمز کی سالگرہ تقریب میں مقبوضہ کشمیر سے وکلا کے ایک وفد نے شرکت کی تھی جس کے سربراہ سید بابر قادری نے کہا تھا کہ ہماری پرامید نگاہیں صرف اور صرف پاکستان کے راستے دیکھ رہی ہیں کہ کب اور کس وقت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے سنجیدہ اور عملی کوشش کی جاتی ہے ،کشمیر کا نوجوان طبقہ باوجود اس کے کہ وہ ہر لمحہ اور ہر آن پاکستان زندہ باد کے نعرہ لگاتے اور پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے جیل کی کوڑیوں میں بند ہوجاتے ہیں مگر ان کو ایک خوف لاحق ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و مذہبی قیادت کشمیر کو شاید اپنی کچھ مصالحتوں اور مجبوریوں کے سبب بھول چکے ہیں۔
جبکہ پاکستانی قوم اور عوام کشمیر اور کشمیریوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے دکھ و الم پر غمگین و حزین ہوتے ہیں۔جس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان کی کوئی سیاسی و مذہبی جماعت دقیقہ بھر کے لئے بھی کشمیر کے مسئلہ سے روگردانی اختیار نہیں کرسکتیں مگر یہ الگ امر ہے کہ کبھی تقاضہ وقت ہوتاہے کہ اعلانیہ طورپر اس مسئلہ پر بات کی جائے اور کبھی خاموش انداز میں اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے عملی کوشش کی جائے اور خاموش انداز سے ہونے والاکام زیادہ مئوثر ہوتاہے۔کشمیر ٹائمز کے چیف ایڈیٹر محمد افضل بٹ نے کہا کہ ہم اور ہمارا اخبار کشمیر کے مسئلہ پر اپنی صدابلند کرتارہے گا اور کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا کہ کشمیر کی تقسیم کے فارمولہ کی کسی صورت کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
kashmir
خوش کن امریہ ہے کہ ہندوستان بذات خود اس امر کا اعتراف کر چکا ہے کہ کشمیر کے قضیہ کو حل کئے پغیر خطہ میں امن قائم نہیں ہوسکتااور نہ ہی ہندوستان معاشرتی و معاشی اور اقتصادی بنیادوں پر مضبوط ہوسکتاہے ۔مگر اصل بات یہ ہے کہ کیا اس مئوقف میں ہندوستانی حکومت کس قدر سنجیدہ ہے اگرچہ اس کی مثال موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے دل لاہور کا دورہ کرکے ابتدائی قدم اٹھایاہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نیک و درست عمل پر ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور راستے میں آنے والی تمام غیر ضروری اور بیرونی سازشوں کو ناپاک و نامراد کرنا ہوگا اور امن و راستی کے پیغام کو آگے بڑھنا ہوگا۔بصورت دیگر عبث ہے کہ خطہ میں امن قائم ہو اور یہ ملک کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔
اسی طرح حکومت پاکستان پر اور پاکستان کی سیاسی و مذہبی جماعتوں پر لازم ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو ناصرف مشترکہ مئوقف اختیار کریں بلکہ ضروری ہے کہ کشمیر کے مسئلہ کو حل کرانے کے لئے اپنی تمام جدوجہد کو صرف کریں تاکہ ملک سے بدامنی اور انتہاپسندی کا خاتمہ ہوسکے ۔حکومت ہندوستان سے دوستی کا ہاتھ اسو وقت تک نہ ملائے تاوقتیکہ وہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہش و آرزو کے مطابق حل نہ کردے۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر خواہشات کو پس پشت ڈال کر ٹھوس اور مستقل بنیادوں پر کام کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقوام متحدہ میں آواز حق بلند کرے کیوں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے”یعنی کشمیر اور کشمیر یوں کو آزادی دلائے بغیر مملکت خداد نامکمل ہے۔ ہم حکومت پاکستان کی جانب سے ٥ فرور ی کو یوم یکجہتی کشمیر منانے پر ان کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ سال کے بارہ مہینے مسئلہ کشمیر پر اپنا مئوقف پیش کرتے رہیں گے تاوقتیکہ یہ مسئلہ حل نہ ہوجائے اور کشمیریوں کو ان کا حق نہ دلوا دیں۔
Atiq Rahman
تحریر: عتیق الرحمن atiqurrehman001@gmail.com 0313-5265617