گذشتہ 85 دنوں سے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کی پراسراریت نے محب الوطن پاکستانیوں کو پریشان کیا ہوا ہے؟۔ انہیں گمان ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جس دن کرفیو اور مواصلاتی ذرائع پر پابندی اٹھی تو کشمیر ی عوام کی سونامی بھارت کی 9 لاکھ سے زاید جارح فوج کو بہا کر لے جائے گا۔کشمیر ی چاہتے ہیں کہ زبانی کلامی مذمت، مصا لحت نہیں، اب دھماکہ کریں، پاکستان کو غلط فہمی تھی کہ شاید امریکا، بھارت پر دباؤ ڈال کر نریندر مودی کو مذاکرات کی میز پر لانے میں تعاون کرے گا۔ لیکن05اگست کو ایسا کچھ ہوگیا جس کی توقع نہیں تھی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے تین حصے وادی کشمیر، جموں اور لداخ کو بھارتی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت ختم کردی اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت ریاست کے آئین کا پابند کرا دیا۔
پاکستان بھارتی چال کو سمجھ چکا ہے کہ اب مودی کی نظریں آزاد کشمیر پر ہیں۔ گوکہ سلامتی کونسل کے غیر رسمی اجلاس میں مسئلہ کشمیر اٹھا۔ اقوام متحدہ میں بھرپور تقریر ہوئی،لیکن کتنے مسلم و غیر مسلم ممالک نے پاکستان کا ساتھ دیا، لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ہر جمعے کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ اظہار یک جہتی کا دن منانے کا اعلان کیا گیا۔ مظاہرے، احتجاج کا سلسلہ پاکستان تک محدود نہیں رہا بلکہ جہاں جہاں پاکستانی و کشمیری آباد تھے انہوں نے پر امن احتجاج کیا۔ امریکی سینیٹرز نے کشمیر کے موضوع پر بحث کی، مقبوضہ کشمیر آنے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا کہ حالات موافق نہیں۔ دوسری جانب دعویٰ کہ حالات ٹھیک ہو رہے ہیں اور 90فیصد علاقوں میں نقل و حرکت بحال اور اسکول کھل چکے ہیں، لیکن بھارت اپنے دعوؤں کو سچ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
بھارت نے ایک مرتبہ پھر وادی نیلم جورا سیکٹر میں نام نہاد سرجیکل اسٹرئیک کا ڈرامہ رچایا گیا، جوابی ردعمل میں پاکستانی فوج نے اتنے بھارتی ہلاک کئے کہ انہیں اپنے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے کے لئے سفید جھنڈے لہرانے پڑے۔ ڈی جی آئی ایس پی آرنے غیر ملکی سفیروں اور ہائی کمشنرز کو لائن آف کنٹرول کے مختلف علاقوں کا دورہ کرایا اور بھارت کو چیلنج دیا کہ وہ بھی ایسا کریں، لیکن بھارت خاموش رہا،بلکہ خود سری و بے شرمی سے لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیاں رکھی۔ بھارتی سفارت خانے کے ڈپٹی کمشنر کو وزرات خارجہ طلب کرکے احتجاجی مراسلہ تھمادیا جاتا اور اگلے دن بھارت پھر گولہ باری کرکے پاکستانی شہری آبادی کو نشانہ بنا تا۔ مذاکرات کے لئے انکار،لیکن کرتار پور راہدری معاہدے پر دستخط پر تیار، گوادرواہ کرتار پور کے بعد ایک غیر ملکی سفارت کار نے آزاد کشمیر میں واقع ہندوؤں کے مذہبی مقام شاردا مندرکو بھی ہندوؤں کے لئے کھولنے کی فرمائش کردی۔ (ممکن ہے کہ پاکستانی حکومت اس پر بھی غور کرے)۔ ایسا سب کچھ ہورہا ہے لیکن مسئلہ کشمیر جوں کا توں ہے۔
پاکستان مقبوضہ کشمیر پر حملہ کرنے کی پہل نہیں کرنا چاہتا، بھارت کی ٹڈی دَل فوج حملہ کرنے کی جرات نہیں کرپا رہی، لفاظی کی دھواں دھار جنگ جاری ہے۔ عمران خان پر مقبوضہ کشمیر کے تنازع کا جلد حل کرانے کا دباؤ خود ان کے جذباتی بیانات کی وجہ سے آیا۔ پاکستان تو مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے تسلط کو ہی تسلیم نہیں کرتا تھا، آرٹیکل370کے خاتمے پر لڑائی شروع کردی۔ تبدیلی سرکارنے تمام زور آرٹیکل370 کی بحالی اور کرفیو کی پابندیاں اٹھانے پر لگادیا۔ جب پاکستان مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ ہی نہیں سمجھتا تو بھارت کچھ بھی کرتا پھرے۔ اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں، بلکہ کوشش تو یہ ہونی چاہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق صرف حق خود ارادیت پر بات کی جائے۔ پھر وعدہ کیا کہ اقوام متحدہ سے واپس آکر انہیں بتاؤں گا کہ کشمیری عوام کو ایل او سی پارکب جانا ہے۔ ابھی سیاہی خشک بھی نہ ہوپائی تھی کی کہ بیان آگیا کہ جس نے لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کی وہ پاکستان و کشمیر کا دشمن ہوگا۔ حکومت پر بڑھتے دباؤ کو آزادی مارچ نے فی الوقت دبا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر حکومت کو موقع مل گیا کہ حزب اختلاف کی جماعتیں کشمیر کاز کو نقصان پہنچا چکی ہیں۔میڈیا بھی سرخ بتی کے پیچھے لگ گیا۔ لیکن مقبوضہ کشمیر کی عوام کو کون اور کس طرح دبائے گا۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر سے نہ تو کرفیو اٹھا اور نہ ہی اس کی پرانی حیثیت برقرار ہوئی۔ سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا اور نہ ہی اقوام متحدہ جاگی۔
مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زاید کشمیری بھارتی جارح افواج کی بندوقوں پر اسیر بنے ہوئے ہیں، سرکاری اطلاعات کے مطابق14 ہزار کشمیریوں بھارت کو کی مختلف جیلوں میں قید رکھا ہوا ہے۔ جب کہ ذرائع کے مطابق پانچ اگست کے بعد سے آپریشن میں گرفتار نوجوان و کم سن کشمیریوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زاید ہے۔ اب تک 11ہزار سے زاید خواتین عصمت دری کی جا چکی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں۔ ہر برس27اکتوبر کو یوم سیاہ بھی منایا جاتا ہے۔ 10لاکھ سے زاید پوسٹیں ٹویٹر انتظامیہ اب تک ہٹا چکی ہے۔سینکڑوں اکاؤنٹ بند کردئیے گئے ہیں۔ جن میں 51فیصد کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے متعلق تھا۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ پرصرف اور صرف سیاست ہو رہی ہے، عملی اقدامات کا سب کو انتظار ہے۔
کشمیر ی عوام بھی گھروں میں بند رہنے اور لاک ڈاؤن کرنے سے کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرانے میں ناکام ہیں۔لیکن انہیں ایک قدم اور آگے بڑھنا ہوگا،گھٹ گھٹ کر مرنے سے بہتر فیصلہ کن ا راستہ اپنانا ہوگا۔ اس سوچ سے باہر نکل آئیں کہ آپ کی آزادی کی جنگ کوئی اور لڑے گا۔ آپ کو اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنا ہوگی۔ کشمیریوں کو بچانے کے لئے ابابلیوں کا لشکر نہیں آئے گا۔ بھارتی حراست میں ہزاروں نوجوانوں کی ریاستی تشدد سے شہادتوں سے بہتر ہے کہ ایک بار تو ایسا نکلیں کہ جس طرح مومند کی ملالہ نکلی تھی، جس کے بعد انگریز استعمار کی لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہیں تھا، مومند کی ملالہ کے قبیلے کی حفاظت کے لئے باہر سے کوئی نہیں آیا تھا، ایک سرخ ڈوپٹہ ڈنڈے پر لپیٹ کر دلہن کی سیج سے میدان جنگ جانے والی مومند کی ملالہ نے آناََ فاناََ سب کچھ بدل دیا تھا۔
ہمیں فخر ہے کہ کشمیری بیٹیاں، مہندی لگے ہاتھوں سخت پتھر کے ساتھ بزدل بھا رتی جارح فوجیوں کو پسپا کرتی ہیں۔ ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی ہمت و غیرت پر سرخ سلام ہے۔ لیک میری بچیوں، میری بہنوں اور ماؤں اپنے مادر وطن کی آزادی کے لئے انہیں فیصلہ کن قربانی دینے کے لئے اپنے سپوتوں کو تیار کرنا ہوگا۔ ان کو خود ہی لڑنا ہوگا، جینا ہوگا، مرنا ہوگا۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اب تک ہزاروں نوجوان بھارتی حراستی مراکز میں شہید و لاپتا ہوچکے ہیں۔ کشمیر کے ہر گھر سے ایک برہان وانی پیدا کریں۔ بھارتی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔