تحریر: محمد عتیق الرحمن کشمیر جنت نظیر کی اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ایک لمبی جدوجہدسے واسطہ پڑتا ہے ۔یہ خطہ ہمیشہ سے ہی قابضوں اور غاصبوں کی نظر میں رہاہے اور کشمیری عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے ہیں ۔ 7 نومبر کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں آمد سے ایک ہفتہ قبل ہی پابندیوں ،گرفتاریوں،نظربندیوں اور کرفیو سے نظام زندگی مفلوج ہوکررہ گیا تھا۔بھارتی وزیراعظم کی 80 ہزار کروڑ روپے کا امدادی پیکج بھی کشمیریوں کو ان کی تحریک آزادی کشمیر سے باز نہیں رکھ سکتا۔
اس طرح کے لالچ دے کر بھارت اب کشمیری عوام کو دھوکہ دینا چاہ رہی ہے تاکہ اس کا قبضہ مضبوط ہوسکے ۔لیکن مقبوضہ کشمیر میں سابق بھارتی سفارت کار اور سول سوسائٹی کی رکن پروفیسر رادھا کمار نے بھارت کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں گرفت کو بیچ چوراہے پھوڑ دیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ’ اگلے 10 سالوں میں کشمیر بھارت کے ہاتھوں سے نکل سکتاہے’۔یہ بات انہوں نے دہلی میں ایک سیمینار میں کہی۔یہ سب کشمیریوں کی مسلسل جدوجہد اور یقین محکم سے ہی ممکن ہواہے کہ آج بھارتی سفارت کار بھی بھارت کے خلاف بیان دینے پر مجبور ہیں ۔
Slavery Kashmir
کشمیر 150 سال سے زیادہ عرصے سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے کبھی انگریز، کبھی ڈوگرہ مہاراج اور کبھی بھارت کے زیر تسلط ،یہاں کے مسلمان مسلسل عذاب جھیل رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی انسانوں کواگر فرداََ نہیں تو پوری کی پوری قوم کو غلام بنانے کا رواج موجود ہے اور کشمیری انہی بدنصیب قوموں میں سے ایک ہیں ۔لیکن کشمیری جسمانی غلام ہونے کے باوجود فکری اعتبار سے ایک آزادقوم ہیں۔ہیومن رائٹس بھی ان مظالم پر چپ ہیں جو وہاںکے نہتے اور بے گناہ مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے سب جھیل رہے ہیں۔ 16 مارچ 1846 کو انگریزوں نے کشمیر کو را جہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ صرف 75 لاکھ روپے میں بیچ دیا۔ اُس نے گلاب سنگھ کو پابند کیا کہ وہ کشمیر کی سرحدیں تبدیل نہیں کرے گا اور ساتھ ہی اس سے یہ وعدہ بھی کیا کہ اس کے خلاف جب بھی مسلح جدوجہد یا بغاوت ہوئی تو حکومت برطانیہ ا س کی مدد کرے گی۔
گلاب سنگھ نے برطانوی حکومت کی بالادستی قبول کرتے ہوئے معاہدے کی ایک شق کے مطابق تاج برطانیہ کو ہر سال کچھ علامتی تحائف بھیجنے کا بھی وعدہ کیا ان تحائف میں ایک گھوڑا، بارہ شالوں والی خاص نسل کی بھیڑیں (چھ نر، چھ مادہ) اور کشمیری شالوں کے تین جوڑے شامل تھے اور یوں ایک پوری ریاست اور پوری قوم سستے داموں بیچ دی گئی۔اور یوں دنیا کے سب سے بڑے انسانی حقوق کے علمبرداروں زندہ لوگوں کا سوداکردیا ۔ انگریز افسروں اور گلاب سنگھ نے معاہدے پر دستخط کر دیئے اور کشمیر کی غلامی درغلامی کا فیصلہ ہو گیا۔
Muslim Martyr
گلاب سنگھ اور اس کے بعد آنے والے تمام ڈوگرہ راجوں نے کشمیریوں کو اپنی جاگیر سمجھا اور جب چا ہا جہاں چاہا جو سلوک چاہا کشمیریوں سے کیا۔ 1837 میں گلاب سنگھ جب وہ جموں کا گورنر تھا نے پختون قبیلے یوسفزئی کے ہر فرد کے سر کی قیمت صرف ایک نا نک شاہی روپیہ مقرر کی اور یوں ہزاروں مسلمان شہید کر دیئے گئے۔ عورتوں کو گلاب سنگھ کے حرم میں لے جایا گیا یا اس کے سپاہیوں کو دے دیا گیا اور یا لاہور کی منڈی میں بیچ دیا گیا۔ 1863 ء میں اس کے جانشین رنبیر سنگھ نے ہنزہ اور یاسین کے علاقے میں اپنے خلاف اٹھنے والی مخالفت کو جس طرح دبایا وہ بھی ظلم کی بے مثال داستان ہے جب مندوری پہاڑی میں چھپی ہوئی زخمی عورتوں کو ان کے بچوں سمیت زندہ جلا دیا گیا
،کل 2,000 دیہاتی مارے گئے اور5,000 کو جبری مشقت کے لیے لے جایا گیا۔کشمیریوں کے مسائل یہاں ختم نہیں ہوئے بلکہ انگریز ہندوستان سے گیا تو کشمیر کا مسئلہ یہیں چھوڑ گیا۔ کشمیر کے راجہ ہری سنگھ نے انگریز سے خریدا ہوا کشمیر بھارت کے ہاتھ بیچ دیا اور یوں کشمیر ایک دفعہ پھر بک گیا اور اس بار تو مفت میں بیچ دیا گیا اور ایک ایسے خریدار کے ہاتھ بیچا گیا جو کشمیری کو گلاب سنگھ سے بھی زیادہ بے قیمت سمجھتا ہے اپنی آزادی کی بات کرنے والے کو یوں قتل کرتا ہے اور اجتماعی قبروں میں یوں دفناتا ہے کہ اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں رہتاکہ مبادا آنے والی کشمیری نسلیں بزرگوں کی بہادری اور قربانی سے متاثر ہی نہ ہو جائیں۔ کشمیر آج کی ترقی یافتہ دنیا میں بھی جب اپنی آزادی کی بات کرتا ہے تو اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے اور اگر پاکستان میں کوئی پاکستانی کشمیر کے حوالے سے لوگوں کے سامنے بھارتی مظالم رکھتاہے اور پاکستانی حکومت کو ابھارتا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ حل کروائے تاکہ مسلمانوں پر ظلم بند ہوسکے تو اُس پر بھی دہشت گرد بلکہ سب سے بڑے دہشت گرد کا لیبل لگاکر اس کے سر کی قیمت مقرر کی جاتی ہے ۔
India
جب کہ اس کی 77% سے زائد مسلمان آبادی ہندو خواہش پر بھارت کی غلام ہے اور نہ صرف اس پر آٹھ لاکھ ایسی فوج متعین ہے جس کو ہر کشمیری جان پر ہر قسم کے اختیارات حاصل ہیں بلکہ بھارت بھر سے ہندو لاکر یہاں بسائے جارہے ہیں ،مندر بنائے جارہے ہیں اور انہیں خصوصی مراعات دی جارہی ہیں تاکہ کشمیری مسلمانوں کے اکثریت کی بنا پر آزادی کے حق کی تو جیہہ کو ختم کیا جا سکے۔لیکن کشمیری اپنی کئی نسلوں کو شہید کروانے اور دنیا بھرکا ظلم سہنے کے باوجود اپنی آزادی کی جدوجہد کو قائم ودائم رکھے ہوئے ہیں جوان کی آزادی سے محبت اور غلامی سے نفرت کو ظاہرکرتی ہے ۔
آج جب بھارت کو اپنے علاقے میں ہندوانتہاپسندوں سے واسطہ پڑاہواہے جنہوں نے بھارت کے فنکاروں،ہدایتکاروں ،مصنفوں اور سول سوسائیٹیز کے کارکنان تک کو نہیں چھوڑابلکہ اگر کوئی بھارتی وزیر بھی ایسا بیان دے دے جو کسی بھی طرح سے پاکستان یا مسلمانوں کے حق میں جاتا ہوتواسے لینے کے دینے پڑجاتے ہیں ۔ایسی صورت حال میں بھارت کا مقبوضہ کشمیر پر قبضہ قائم رکھنا بہت مشکل نظر آرہاہے ۔یہ بالکل ایسی صورت حال پیدا ہوچکی ہے جو بھارت نے پاکستان کے علاقوں میں اپنے ایجنٹ بھیج کر پیداکردی تھی ۔اور دنیا کو باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان ایک ناکام اور دہشت گردوں کی ریاست ہے ۔پاکستان نے جس طرح اس دہشت گردی اورپروپیگنڈے پر قابو پایا ہے آج پوری دنیااس بات کی گواہی دے رہی ہے ۔پاکستانی وزیراعظم اور پاکستانی آرمی چیف کو خراج تحسین پیش کیا جارہاہے ۔
آج پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ فرانس کو دہشت گردوں سے نپٹنے کے لئے پاکستان کی طرف دیکھنا پڑتاہے۔امریکہ تک پاکستان کی عسکری طاقت کو خراج تحسین پیش کرچکاہے ۔ایسے وقت میں پاکستانی حکومت اور میڈیا کا کردار اور بڑھ جاتا ہے کہ وہ بھارت کامکروہ چہرہ جو وہ بھارتی اقلیتیوں کے ساتھ رکھے ہوئے دنیا کے سامنے بھرپور اور موثر انداز میں رکھے ۔اس وقت کشمیر یوں سمیت بھارتی مسلمان اور اقلیتیں بھی دنیاکی طرف انصاف کی غرض سے دیکھ رہی ہیں۔پاکستان میں اگر کوئی ہندو قتل ہوجاتاہے تو پوری دنیا سراپا احتجاج بن جاتی ہے ۔بھارت میں اسلام اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر جس طرح سے ظلم کیا جارہاہے اور جس طرح سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت خون کی ہولی کھیل رہاہے ، ان سب کو بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔
کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہیئے یہی اقوام متحدہ کی قرارداد ہے ۔پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ دنیا کے ہرفورم پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے معاملے کو رکھے تاکہ کشمیریوں کو ایک مسلسل عذاب سے نجات مل سکے اور دنیا کو بھارت کی دہشت گردیوں سے بچایاجاسکے۔اور ہاں کیا بھارتی ایٹم بم کو کوئی خطرہ نہیں ان انتہاپسند ہندوئوں سے ؟