کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں بیشتر سیاسی رہنماؤں کی قید و بند اور سیاسی سرگرمیوں کی عدم موجودگی میں ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا گيا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ نئی سیاسی جماعت بھارتی حکومت کی مدد سے وجود میں آئی ہے۔
ایک ایسے وقت جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں شجرممنوعہ ہیں اور ریاست کے تین سابق وزرائے اعلی سمیت تمام سرکردہ رہنما جیل میں ہیں، سرینگر میں متعدد سیاسی جماعتوں سے وابستہ سیاسی رہنماؤں نے ایک نئی جماعت ‘جموں و کشمیر اپنی پارٹی‘ (جے کے اے پی) کا اعلان کیا گيا ہے۔ اس سیاسی ہلچل کے روح رواں کشمیر کے امیر ترین تاجر اور محبوبہ مفتی کی سیاسی جماعت ‘پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی‘ سے برطرف رہنما الطاف بخاری ہیں۔ پارٹی کے اعلان سے قبل الطاف بخاری نے سختگیر نظریات کے حامل بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال سے دہلی میں ملاقات کی تھی۔
سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر جب بخاری نے پارٹی کے اعلان کے لیے پریس کانفرنس کی تو ان کے ساتھ کئی ایسے لوگ موجود تھے جو کئی بار یا تو سیاسی جماعتیں بدل چکے تھے یا پھر برطرف کیے جا چکے تھے۔ اس موقع پر الطاف بخاری نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں فی الوقت کشمیر میں کسی سیاسی سرگرمی یا انتخابات کی توقع نہیں ہے۔ تو پھر سیاسی جماعت کیوں قائم کی گئی؟ اس پر انہوں نے کہا، ”ہم دہلی اور کشمیری عوام کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔‘‘
ان سے جب یہ سوال کیا گيا کہ ایک ایسے وقت جب کشمیر کے بیشتر رہنما قید میں ہیں، تو کیا اس جماعت کی تشکیل کے پیچھے مرکزی حکومت کا ہاتھ نہیں ہے؟ مسٹر بخاری نے اس سوال کو ٹالتے ہوئےکہا کہ ”میں اس طرح کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔‘‘ ان کی جماعت میں شامل ایک دوسرے رہنما غلام حسن میر کا کہنا تھا، ”ہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘
کشمیر ٹائمز کی ایڈیٹر انورادھا بھسین کشمیر میں اس پیش رفت کو مرکز کی نمائشی کوشش قرار دیتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات چيت میں انہوں نے کہا، ”کشمیر میں مقبول قیادت کو ختم کرکے کٹھ پتلی رہنماں کو مسلط کرنے کی تاریخ پرانی ہے۔ اور یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔‘‘ انورادھا بھسین کے بقول، ”دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کو ختم کرنے کے سلسلے میں بی جے پی پر بھرپور تنقید ہوئی ہے اسی لیے اس کی جانب سے یہ ایک دکھاوے کی کوشش ہے تاکہ یہ تاثر جائے کہ کشمیر میں سیاسی سرگرمی جاری ہے۔‘‘
انورادھا نے مزید بتایا کہ حالانکہ زمینی صورت حال اس کے برعکس ہے اور اس کوشش کے کچھ بھی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ”کشمیر کی موجودہ صورت حال میں کوئی بھی سیاسی جماعت مرکزی حکومت کی سہولت اور اس کی مرضی کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔‘‘
بھارتی زیر انتظام کشمیر میں بائیں بازو کے رہنما یوسف تاریگامی نے انورادھا کے موقف کی تائید کرتے کہا کہ یہ تو بہت ہی واضح ہے کہ ‘جے کے اے پی‘ کا قیام مرکزی حکومت کی ایماء پر کیا گيا ہے۔ ڈی ڈبلیوسے بات چیت میں انھوں نے کہا، ”اس میں مرکز کی اعانت شامل رہی ہے، جب تمام سیاسی رہنما قید میں ہیں اس سے یہ نئی جماعت یا پھر مرکزی حکومت حاصل کیا کرنا چاہتی ہے۔ میرے خیال سے یہ اقدامات بے معنی ہیں۔‘‘
کشمیر سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ہارون رشید کا کہنا ہے کہ اس سیاسی پیش رفت سے کشمیری عوام بھی پوری طرح سے لا تعلق ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں انہوں نے کہا کہ کشمریوں کو ایسی سرگرمیوں پر نہ تو اعتماد ہے اور نہ ہی اس سے کوئی امید وابستہ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”عام تاثر یہ ہے کہ یہ مین اسٹریم سیاست دانوں اور علحیدگی پسندوں کو کشمیر سے لاتعلق کرنے کا عمل ہے تاکہ دہلی کی حکومت یہاں اپنی خواہشات کے مطابق سب کچھ کر سکے۔ یوں سمجھیے کہ نئی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم ہے۔‘‘
ساٹھ سالہ الطاف بخاری کا تعلق ضلع سوپور کے لاڈورہ گاؤں سے ہے جنہیں گزشتہ برس بی جے پی سے قربت اور پارٹی کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے لیے پی ڈی پی نے برطرف کر دیا تھا۔ جے کے اے پی میں دوسرے بڑے رہنما سابق ریاستی وزیر غلام حسن میر ہیں جو پہلے نیشنل کانفرنس میں تھے۔ مسٹر میر کے بھارتی فوج کے ساتھ گہرے روابط رہے ہیں۔ بھارت کے سابق فوجی سربراہ وی کے سنگھ نے غلام میر کو خدا کے لقب سے نوازتے ہوئے، ”قوم پرست اور جموں کشمیر میں اتحاد کی علامت قرار دیا تھا۔‘‘