کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے مبینہ ‘سنگ بازوں‘ کو ملازمت اور پاسپورٹ کے لیے سکیورٹی کلیئرنس نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہند نواز کشمیری رہنماؤں نے اس فیصلے پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں نریندر مودی کی قیادت والی انتظامیہ نے اپنے تازہ ترین احکامات میں کہا ہے کہ جن کشمیری نوجوانوں پر پتھر بازی میں ملوث ہونے کا الزام ہے انہیں پاسپورٹ یا پھر سرکاری ملازمت کے لیے پولیس کی جانب سے سکیورٹی کلیرئنس نہیں دی جائے گی۔ کشمیر میں ان دونوں چیزوں کے لیے پولیس کی جانب سے مثبت رپورٹ لازمی ہے۔
حکومتی ہدایات میں حکام سے کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے دستاویزات کی تصدیق کے دوران امن و قانون، پتھر بازی میں ملوث ہونے اور ریاستی سلامتی کے لیے دیگر نقصان دہ جرائم سے متعلق امور کی تفتیش کا خاص خیال رکھا جائے اور مقامی تھانے سے ایسے ریکارڈ کی تصدیق کی جائے۔
انتظامیہ نے سی آئی ڈی کی تمام خصوصی برانچوں کو ہدایت دی ہے کہ کشمیر کی تمام فیلڈ اکائیوں کو اس بات کو، ”یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پاسپورٹ، سرکاری سروسز اور سکیموں سے متعلق کسی بھی تصدیق کے دوران، امن و قانون، پتھر بازی کے معاملات اور ریاستی سلامتی کے لیے نقصان دہ دیگر جرائم کا خاص طور پر خیال رکھا جائے اور مقامی تھانے کے ریکارڈ سے بھی اس کی تصدیق کی جائے۔”
حکمنامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد کے ساتھ ساتھ تصاویر، ویڈیوز اور آڈیو جیسی جو بھی ڈیجیٹل ریکارڈ سکیورٹی فورسز کے پاس موجود ہوں، ان کا بھی جائزہ لیکر فیصلہ کیا جائے۔
ہدایات کے مطابق حکام سے کہا گیا ہے، ”کوئی بھی فرد اگر ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث پایا جائے تو اسے سرکاری ملازمت یا پھر پاسپورٹ کے لیے سکیورٹی کلیرئنس دینے سے منع کر دیں۔”
ہند نواز کشمیری جماعتوں کا رد عمل ریاست کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے حکومت کی نئی ہدایات پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ پولیس کی رپورٹ کی بنیاد پر ایسے فیصلے قطعی درست نہیں ہیں اور اس طرح کے فیصلے عدالتی معیار پر اکثر کھرے نہیں ہوتے ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک، ”منفی پولیس رپورٹ قانون کی عدالت میں مجرم پائے جانے کا ہرگز متبادل نہیں ہو سکتی۔ ڈیڑھ برس قبل جموں و کشمیر پولیس پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت میری حراست کو بھی درست قرار دینے کے لیے ایک ‘منفی پولیس رپورٹ’ بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی لیکن وہ کبھی قانونی چیلنج کا سامنا نہیں کر سکی۔”
محبوبہ مفتی نے بھی دو اگست کو اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ کشمیریوں کو بے گناہ ثابت ہونے تک گنہگار مانا جاتا ہے۔ ”چاہے سرکاری ملازمت ہو یا پھر پاسپورٹ، انہیں بدترین قسم کی جانچ پڑتال کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن جب ایک پولیس اہلکار کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کو سہولت فراہم کی تھی تو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوہرا معیار اور گندے کھیل پوری طرح سے واضح ہیں۔”
انہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت گرفتار ہونے بے گناہ کشمیری کئی برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ ان کے لیے آزمائش سزا بن جاتی ہے۔ لیکن جنگجوؤں کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے پولیس اہلکار کے خلاف بھارتی حکومت انکوائری تک نہیں چاہتی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس پولیس اہلکار نے انتظامیہ کے ساتھ مل کر کچھ گھٹیا واقعات کو انجام دیا؟”
بھارت کے زیر انتظام خطہ کشمیر گزشتہ دو برس سے مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے جہاں کی انتظامیہ مرکزی حکومت کے ماتحت ہے۔ اسی انتظامیہ نے یہ قانون بھی نافذ کیا ہے کہ سرکاری ملازمت کے لیے فورسز کی جانب سے سکیورٹی کلیرئنس لازمی ہے۔ اسی قانون کی وجہ سے بہت سے افراد کی اسی لیے سرکاری عہدوں پر تقرری روک دی گئی کیونکہ پولیس نے انہیں سکیورٹی کلیرئنس نہیں دیا تھا۔
کشمیر میں سرکاری ملازمت کے لیے انتظامیہ نے جو نئے اصول و ضوابط وضع کیے ہیں اس کے تحت سرکاری ملازمت حاصل کرنے والے تمام افراد پر یہ بھی لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ گزشتہ پانچ برس سے استعمال میں آنے والے اپنے فون نمبر اور اپنی گاڑی کی تفصیلات بھی مہیا کریں۔
مزید یہ کہ انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ وہ جماعت اسلامی کے رکن تو نہیں ہیں۔ ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت، سیاسی گروپ یا پھر ایسے کسی دوسرے کلب سے تو نہیں ہے۔
حکومت ملازمتوں کے نئے قانون کے نفاذ کے بعد سے اب تک تقریباً 18 ایسے سرکاری ملازمین کو اس الزام کے تحت برخاست کر چکی ہے جو اس کے بقول ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ اس میں حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین کے دو بیٹے بھی شامل ہیں۔
کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں کے دوران فورسز پر پتھر بازی عام بات رہی ہے اور مبصرین کے مطابق حکومت اس پر کنٹرول کے لیے اس طرح کی سختیاں برت رہی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 اگست میں کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو خطوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایسا کرنے کے لیے کشمیر میں کرفیو جیسی سخت بندیشیں عائد کر دی گئی تھیں اور سینکڑوں کشمیری رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس میں سے بیشتر اب بھی بھارت کی مختلف جیلوں میں قید ہیں جبکہ بہت سی سخت بندشیں اب بھی عائد ہیں۔