تحریر : انجینئر افتخار چودھری آج جموں کشمیر بارہ سال کا ہو گیا ہے۔ سب سے پہلے برادر عامر محبوب ان کے ساتھیوں اور ان قارئین کو مبارک ہو جن کا پیار اس اخبار کو ملا۔ میرا تعلق بھی اس اخبار سے اتنا ہی جتنی اس کی عمر ہے۔اللہ تعالی اسے دن دگنی اور ارت چگنی ترقی دے آمین۔ اس اخبار کے بارے میں لکھتے وقت مجھے وہ دوست بھی بہت یاد آئے جو اس کے ایڈیٹوریل صفحے پر رونق افروز ہوا کرتے ہیں۔ان میں بشیر جعفری افتخار مغل شامل ہیں۔ شروع کے دنوں میں ہاتھ سے لکھ کر کالم بھیج دیا کرتا تھا علی اکبر ہائوس جی ایٹ میں کافی سیڑھیاں چڑھ کر بعض اوقات میں بھی پہنچ جاتا۔اس زمانے میں اخبار میں تین بھاری بھر کم شخصیات رونق افروز ہوا کرتی تھیں امتیاز بٹ شہزاد راٹھور اور جناب عامر محبوب۔ کمال کے بھائی بھی ہیں جو آمر بھی ہیں اور محبوب بھی۔ویسے آج کل موسم بھی آمروں سے پیار اور چاہت کرنے کا ہے۔ گل ویلے دی تے پھل موسم دا۔ویسے سچ پوچھیں آمروں کو خصوصی فرمائش پر لایا جاتا ہے۔لیکن ہوتا ایسا نہیں بعض دفع سپیکر والا خود اپنی فرمائش پر نغمہ لگا دیتا ہے۔اس بار اس سوئے ہوئے شیر کی مونچھوں کو پوٹنے خود چہچہاتی ٹیٹیریاں بلانے کے موڈ میں ہیں۔
بات ؤاپنے عامر سے اس آمر کی جانب چلی گئی جس کے ہتھے ہم بھی چڑے تھے۔ان حالات میں چوہا اگر لنڈورہ ہی رہے تو بہتر ہے۔امتیاز بٹ کو آپ نے دیکھا ہو گا اگر نہیں دیکھا تو نہ ہی دیکھیں اتنے پیارے اور خوبصورت لوگ ہاتھوں نہیں آتے ۔ایک نگر سے دوسرے پھر تیسرے۔اللہ پاک انہیں جہاں بھی رکھے خوش رکھے ۔میرا ایک دوست ہے ہر سال دو سال بعد کسی نئے ادارے کا کارڈ ہاتھ میں تھما دیتا ہے ۔حیران ہو کر پوچھا یار ٹک کے کام کیوں نہیں کرتے کہتا کیا کریں کوئی مالک ڈھنگ کا نہیں ملتا۔ویسے بات ہے مزے کی اکثر اوقات وہ مالک کو اپنی ملکیت سے نکال دیتا ہے۔نہ چوری نہ غبن نہ کاہلی اور نہ ہی سستی مگر وہ ٹک کے کام نہیں کرتا۔مالک آئوٹ دوست باہر۔ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنے کی جسارت کر رہا ہوں اس میں کرداروں کے نام وہی ہوں گے جو درج کروں گا۔ستر کی دہائی میں سخت سردیوں میں ہاتھ سوج جایا کرتے تھے میں گجرانوالہ سے لاہور گاڑی میں جایا کرتا تھا۔
سوچا کسی دوست کے ہاں لاہور ہی رہ جاتا ہوں میں ان دنوں لاہور کی ایک ڈیلر شپ میں گاڑیوں کی ورکشاپ میں کام کیا کرتا تھا ٹریننگ ہو رہی تھی۔۔وہاں اللہ جنت بخشے ایک دوست نذیر احمد کام کیا کرتے تھے وہ جماعت اسلامی کے جناب خلیل حامدی کے بھانجے تھے۔میں بھی اسلامی جمیعت طلبہ کا امیدوار رکنیت تھا انہی کی سفارش سے مجھے پیر غازی روڈ پر ایک کوارٹر میں جگہ مل گئی جن میں مولانا مودودی کے آفس میں کام کرنے والے جناب محمد خالد،فرید پراچہ کے بھائی سعید پراچہ اور ایک اور دوست رہاکرتے تھے۔پہلے دن ہی گیا تو دروازے پر شور مچا۔غور سے سنا تو پتہ چلا مالک مکان کرایہ مانگنے آیا ہے صالحین کے اس گروہ کے انچارج خالد بھائی تھے۔مالک مکان کی آواز آئی دفع ہو جائو مجھے ایسے کرائے دار نہیں چاہئیں۔ادھر سے بھائی نے جواب دیا خواہش ہماری بھی نہیں ہے تم جیسا گھٹیا مالک مکان ہمیں ملے دفع ہو جائو ہمیں ایسا مالک مکان نہیں چاہئے۔امتیاز بٹ شائد اسی کوارٹر کا باسی ہے جو مالک مکانوں کو نکال دیتا ہے۔شہزاد راٹھور اس ادارے سے کئی بار روٹھے شائد نام کی مجبوری تھی۔اللہ پاک سب دوستوں کو خوش رکھے۔
عامر سے ایک یاری بھی ہے وہ ہے گجر ہونا۔گجر چاہے پی ایچ ڈی ہو اس کے کھڑاک مشہور ہوتے ہیں ایک رپورٹر سے مالک ایڈیٹر کا سفر جو میرے اس چھوٹے بھائی نے طے کیا ہے اس میں بہت سے کھڑاک دار واقعات جو میری سماعتوں تک پہنچے ہیں ثابت ہوتا ہے کہ وہ واقعی گجر ہے اور گجروں کی روائتی دلیری اور بہادری سے سجا ہوا ہے۔جموں کشمیر مجھے سے بہت پیار کرتا ہے سچ پوچھیں کوئی لاڈلے ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ انوکھے لاڈلے۔جو بھیجا جو لکھا چھاپ دیا۔میرے ساتھ جدہ میں جنرل مشرف دور میں قیامت گزری اسے بھی من و عن چھاپا اور ان دنوںچھاپا جب چھاپنے کے بعد چھاپے پڑ جایا کرتے تھے۔عامر نے کہا چودھری صاحب آپ لکھیں چھاپیں گے ہم ۔اور سچی بات ہے میں ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق اپنی جبینوں پر سجائے رکھتے تھے وہ بھی میرے کالم روک لیتے تھے اور جنہوں نے ظلم جبر اور فحاشی کے خلاف اعلان جنگ کیا وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔
ان کے پیار کرنے کی ایک واضح دلیل یہ ہے کہ یہ مجھے بہترین کالم نویس کا ایوارڈ نہیں دیتے۔اور میں بھی ان کے اس فیصلے پر شکر گزار ہوں کہ مجھے ایوارڈ نہیں دیتے ہیں افتخار مغل کو ملا وہ ہمیں افسردہ چھوڑ چلے گئے بعد میں بشیر جعفری پر ان لوگوں نے نظر کر م ڈالی وہ اس جہان کو چھوڑ اس دنیا میں چلے گئے ۔میں نے ایک بار ان دوموٹے افراد سے شکوہ کیا تو جواب ملا چودھری صاحب معاملہ آپ کے سامنے ہے افتخار مغل اور بشیر جعفری کو بھی ہم نے ہی ایوارڈ دیا تھا۔سنائیں۔مجھے خیلا آیا اب کار جہاں بہت ہیں ایوارڈ پھر سہی۔قارئین انسان روز جنازے پڑھتا ہے روز اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو دفن ہوتے دیکھتا ہے۔لیکن اس نے کبھی اپنے جانے کی تیاری نہیں کی۔شعر سادہ سے آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں سامان سو برس کا کل کی خبر نہیں۔ہمارے وہ پیارے دوست جو اب ہم میں نہیں ہیں مگر ان کے جگ مگ کرت موتی جموں کشمیر کی کسی فائل میں چھپے ہوئے ہیں۔
میں آج عامر محبوب سے درخواست کروں کا کہ ان کے کالموں کا مجموعہ ضرور چھاپئے گا۔اور جب میں اس دنیا سے جائوں تو ایک کتاب میرے کالموں کی۔ویسے مجھے چونکہ اعتبار کم ہے لہذہ میری تو ابھی چھاپ دیں۔ہمارے وہ دوست وہ ضرور آج ہمیں دیکھ رہے ہوں گے سنا ہے جنت کے مکین اپنے دوستوں کی کامیابیوں اور خوشیوں کو چھپ چھپ کر دیکھتے ہیں۔اللہ پاک ان کی قبروں کو جنت کے باغوں میں سے باغ بنا دے آمین۔آج کے دور میں اخبار نکالنا یقینا بہت مشکل ہے پچھلے دنوں خبریں کی سلور جوبلی تھی لاہور جانے کا موقع ملا تو میں نے محسوس کیا مالکان بہت فکر مند ہیں۔ان کی اپنی مجبوریاں تھیں۔لیکن جس تیزی سے کشمیری اخبارات نکلے میں محسوس کر رہا ہوں کے یہاں پاکستان سے حالت مختلف ہیں۔جموں کشمیر بڑا دلیر اور بہادر اخبار ہے۔اس نے زود رنج حکمرانوں کے غصے کو برداشت کیا ہے۔
حکمران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کے چہرے پر شکنیں کم اور مسکراہٹوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔لیکن اقتتدار کی کرسی پر بیٹھتے ہی ان کے مزاج شاہانہ ہو جاتے ہیں۔سب اچھا دیکھنے کے خواہشمند سب برا کی جھلک دیکھنے کے بعد تلملا جاتے ہیں۔عنائت علی خان نے کیا خوب کہا تھا اس کے رخسار پے تل ہے اور تیرے ہونٹوں پے ہے تل تلملانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور آگے کہا ایک رقاصہ نے گا گا سنائی ہے خبر ناچ گانے کی اجازت نہیں دی جائے گی پروفیسر عنائت علی خان بھی تحریک شاعر ہیں اور بزرگ دوستوں میں سے ہیں۔انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں یہ شاعری کی جس کی تشریح کے لئے انہیں خاکستری لوگوں کے سامنے پیش ہونا پڑا ہم کسی صورت نہیں چاہتے کہ نوبت ایسی آئے۔خطہ ء کشمیر کے آسودہ لوگ پیار کرنے والے لوگ سچ پوچھیں مجھے پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات سے زیادہ جموں کشمیر کے کالم نویس کی حیثیت سے جانتے ہیں اس کا ادراک مجھے کھڈ گجراں میں ہوا جب جاوید اقبال بڈھانوی کے والد گرامی کا انتقال ہوا۔
میرے افسانے مجھ سے پہلے جموں کشمیر لئے پہنچا تھا۔بارہ سال گزر گئے آج ایک کھلنڈرہ جموں کشمیر ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ اسے نئے چیلینجز کا سامنا ہے نیٹ پر اخبارات کا ہونا، حکومتی کے مزاج اور بہت کچھ۔مجھے آج خلاد گردیزی کا بھی ذکر کرنا ہے جس نے محنت سے اس اخبار کو آگے بڑھایا جاوید ہاشمی اور بہت سے لوگ۔آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ جموں کشمیر اورسیز کشمیریوں میں کتنا مقبول ہے۔یہ میں جانتا ہوں کہ اسے رفیق عارف مقبول رضا اشفاق سیٹھی عبدالطیف عباسی راجہ اکرم حافظ عبدالخالق،محفوظ شبیر گجر،سردار نصیر شاہد لنگڑیال،نبیل چوہان، سردار عبدالحفیظ،سردار الطاف،سردار عارف قاری رئیس کفل گڑھی سردار اعظم اور ہزاروں دیگر دوست کس طرح سینے سے لگائے پھرتے ہیں ۔میں عامر محبوب کو ایک بار پھر مبارک باد دوں گا۔اس اخبار کی کامیابی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عامر نے سچی بات ہے ویگنوں اور رکشوں کے پیچھے لکھے اس قول کو ثابت کیا سب کچھ جو ملا ہے میری ماں کی دعائوں کا صلہ ہے۔
عامر اس کامیابی کے سفر میں اپنی امی جان کو نہیں بھولے۔وہ بچے بہت کامیاب ہوتے ہیں جن کی مائیں ان کی کامیابی کے لئے دعا کرتی ہیں۔میرے گھر میں بھی پانچ بچوں کی ماں ہے میں نے دیکھا کہ جب بچے کسی لمبے سفر پر پردیس میں نکلتے تو ماں مصلے پر چلی جاتی ہے۔اللہ سب کی مائوں کو سلامت رکھے سارے دوستوں کو خوش رکھے۔جموں کشمیر نے آزاد کشمیر کو آزادی کشمیر کا بیس کیمپ بھی بنانا ہے۔کشمیر میں چلنے والی تحریک کا پشتیبان بھی بننا ہے۔ گرچہ اس نعرے سے بعض لوگ چڑ جاتے ہیں مگر جو دل سے لگانے والے ہوتے ہیں ان کی آواز سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی قدم بڑھائو جموں کشمیر ہم تمہارے ساتھ ہیں۔