تحریر: محمد نواز بشیر یہ کہاوت تو سب نے سنی ہوگی کہ سیاست بڑی بے رحم ہوتی ہے اس کے سینے میں دل نہیں ہوتااس کا مشاہدہ تو کم و بیش اکثر لوگوں کوہوتارہتاہے۔ لگتاہے آزاد کشمیر کے متوقع عام انتخابات بڑے معرک الار ا ہوں گے جس میں تحریک ِ انصاف ، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے علاوہ ماضی کی حکمران پارٹی مسلم کانفرنس بھی میدان میںہے حالات تو یہی بتاتے ہیں کسی جماعت کا کسی کے ساتھ انتخابی اتحاد نہیں ہوگا چونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف ِآخر نہیں ہوتی اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا سیاست کے بارے میں ایک اور بات بڑی مشہور ہے کہ آج کے دوست کل کے دشمن ہوتے ہیں متعددبار دیکھاگیاہے ایک دوسرے کے حلیف جن کے درمیان بہت سی چیزیں،پارٹیاں اور قدریں مشترک ہوتی ہیں ان پر ایک وقت ایسا بھی آتاہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف الیکشن لڑتے ہیں حتیٰ کہ، مد مقابل آکر ایک دوسرے کے خلاف اتنی گھٹیا باتیں اور اس قدر گھناؤنے الزام لگاتے ہیں جس سے توبہ ہی کی جا سکتی ہے، سیاست میں کوئی چیز حرف ِ آخر نہیں ہوتی ایک دوسرے کو غدار،سیکورٹی رسک اور نہ جانے کیا کیا قرار دینے والے بہن بھائی بھی بن سکتے ہیں۔
لوگ حیرت سے ان کو تکتے رہ جاتے ہیں کہ پاکستان میں جب سے نظریاتی سیاست دم توڑنے لگی ہے اور مفاہمتی سیاست کاآغاز ہواہے بیشتر سیاستدانوں کاکام آسان ہوگیاہے موجودہ سیاست میں ایک اور ستم ظریفی پروان چڑھ رہی ہے کچھ لوگوں نے ذاتی مفادات کیلئے نظریات، وفاداری اورجماعتوں سے ادھر ادھر جانا فیشن بنالیا ہے لیکن پھر بھی شرفاء ، اچھے کردار کے حامل سیاستدان اوراعلیٰ اقدارکے حامی اسے برا سمجھتے تھے کچھ اب بھی برا خیال کرتے ہیں شایدان کے خیال میں سیاست میں قربانی دینا پڑتی ہے یقینا سیاست میں قربانیاں اعلیٰ ظرف کے لوگ ہی دیتے ہیں کہ اچھے بروں میں یہی امتیازکا ایک معیارہے اور یہ ساری کی ساری باتیں اور کہاوتیں اس وقت شدت سے یاد آئیں جب لوگ مسلم کانفرنس کے صدر سردارعتیق کے تازہ ترین خیالات سے مستفید ہوئے جن میں انہوں نے فرمایاہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیںسردارعتیق آزادکشمیرکے مجاہد ِ اول سردار عبدالقیوم کے فرزند ِ ہیں کشمیرکے لئے ان کی خدمات،نظریات اورقربانیاں قابل ِ تحسین سمجھی جاتی ہیں اسی حوالے سے ان کا احترام بدترین مخالف بھی کرتے ہیں لیکن نہ جانے کچھ عرصہ سے سردارعتیق کو کیاہوگیاہے کہ وہ صاف چھپتے بھی نہیں اور نہ ہی کھُل کر سامنے آتے ہیں ۔
Nawaz Sharif
کبھی لگی لپٹی بغیر سیدھی سیدھی باتیں کرکے دل کا غبار نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جو ان جیسے سنجیدہ سیاستدان کی شخصیت سے تال میل نہیں رکھتی ان کی جماعت مسلم کانفرنس کی ایک تاریخ یہ بھی ہے کہ جب سے میاں نواز شریف سیاست میں آئے تو سردار عبدالقیوم کے ان سے گہرے روابط تھے۔ اس اعتبارسے وہ ان کے ہم خیال اور فطری حلیف بھی سمجھے جاتے تھے اس بات کا مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم کو بہت فائدہ ہوا کہ میاں نواز شریف نے اپنی حریف جماعت پیپلزپارٹی کے مقابلے میں ان کو بہت پرموٹ کیا اور اس طرح آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کا طوطی بولنے لگا اسی وجہ سے سردار عبدالقیوم مسلم لیگی ہم خیال اور پیپلز پارٹی کے تمام مخالفین کے مرکزو محور بن گئے اور یوں متعدد بار سردار عبدالقیوم اوران کے فرزند سردارعتیق آزادکشمیرکے وزیر ِ اعظم بنے، لیکن میاں نواز شریف تو سردار عبدالقیوم کو سیاسی مرشد قرار دیتے رہے ان کے درمیان تعلقات میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا جب میاں نواز شریف جلاوطنی کی زندگی گذاررہے تھے تو اس وقت کہا جاتاہے کہ معاملات پر سردار عتیق کی گرفت مضبوط ہوگئی ان کا میاں نواز شریف سے اتنا قلبی تعلق نہیں تھا جتنا ان کے والد کا تھا پھر سردار عبدالقیوم خان کی رحلت کے بعد سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیامسلم کانفرنس کے رہنماؤں نے آزادکشمیرمیں اپنی حکومت بنانے کیلئے میاں نوازشریف کے سیاسی مخالفین کے ساتھ” مفاہمتی سیاست کا آغازکیا جس سے جلاوطن رہنماؤں کو شاک لگا۔۔میاں نواز شریف نے اسی دن تہیہ کرلیا تھا
اب سردار فیملی پر اعتماد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن اپنی الگ سے انتخابی سیاست کریگی جب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن نے عملی سیاست کاآغازکیا منظرنامہ اور بھی تبدیل ہوگیااینٹی پیپلزپارٹی میں دھڑے بن گئے، اور چند سیاست دان گروپ بھی تقسیم ہوگئے جس کی وجہ سے آزادکشمیرکی سیاست چی۔چوں۔چاں کا مربہ بن کررہ گئی، اس کا رزلٹ یہ نکلامیاں نوازشریف اور سردار فیملی کے درمیان ”ٹٹ گئی تڑک کرکے”اب آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن ایک الگ قوت ہے اورمسلم کانفرنس الگ قوت ان سارے معاملات میں سب سے بڑا نقصان مسلم کانفرنس اور اس سے زیادہ سردار عتیق کا ہو ا ہے کیونکہ آزادکشمیرمیں مسلم لیگ ن کا شمار ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طورپر ہوتاہے جس کے صدر فاروق حیدر جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جو اپنی کامیاب حکمت ِ عملی کے تحت خودکو وزیر ِ اعظم آزادکشمیربنانے کی حدتک کامیاب کر رہے ہیں وہ میاں نواز شریف کے انتہائی قریب بھی ہیں اور آزادکشمیرکے موجودہ سیاسی بحران میں ایک فریق بھی مسلم کانفرنس اس سیاسی صورت ِ حال میں سب سے زیادہ بے چین بھی ہے اسے کچھ سجائی نہیں دے رہا شاید اسی بناء پرسردار عتیق نے وہ بات کہہ ڈالی جو انہیں نہیں کہنی چاہیے تھی
PPP
ایک تو انہوں نے ملٹری ڈیمو کریسی کی اصطلاح ایجادکرڈالی جو لوگ جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں انہوں نے اسے پسندنہیں کیا اس کے ساتھ ہی وہ وقتاً فوقتاً اظہارِ خیال کرتے رہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ان کی سیاست الگ الگ ، لیکن مفادات ایک ہی ہیں ”اسکے دو مقاصد ہو سکتے ہیں پہلا یہ کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں سے مایوس لوگ ایک بار پھر ان کے گرد اکھٹے ہو جائیں دوسرا یہ کہ انہیں پاکستان کی عسکری قوتوں کی حمایت حاصل ہو جائے لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ اب لوگ فوج کا جمہوریت پر شب خون مارناقطعی گوارانہیں کرتے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ فوج ایک منظم ادارہ ہے جس میںکسی بھی سیاستدان کی اعلانیہ سرپرستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ایسے بیانات سے انہیں تازہ آکسیجن نہیں مل سکتی کیونکہ آج آزادکشیمر کے سیاسی حالات اورقومی منظر نامہ یکسر تبدیل ہورہا ہے، ۔
جن میں گلے شکوے، شکائتیں،طعنے کمزورلوگوں کے ہتھیارہیںاسی وجہ سے ان سیاستدانوں کو ڈکٹیٹروں کی حمایت مہنگی بھی پڑ سکتی ہے،سستی شہر تک ایسا کرنے والے اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس ہوگئے ہیں حالانکہ اپنے مخالفین کو فیس کرنا،انہیں ٹف ٹائم دینا اور جھپٹنا ،پلٹنا۔پلٹ کر جھپٹناہی اصل سیاست ہے آج کے دورمیں جو سیاستدان ایسا نہیں کرتا وہ سیاست سے ائوٹ ہوجاتاہے مسلم کانفرنس کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ ن سے اتحاد،الحاق یا انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہوجائے مسلم لیگ ن کے رہنما اس امکان کو بارہا مرتبہ مسترد کرچکے ہیں کوئی شاٹ کٹ ڈھونڈنے کی بجائے اگر مسلم کانفرنس کو سیاسی بنیادوں پر دوبار ہ منظم اور متحرک کیا جائے تو اس کا فائدہ یقینی ہوگا،ایک پیش گوئی یہ بھی ہے ۔
Tehreek-e-Insaf (PTI)
مسلم کانفرس سے اتحاد ایسا کچھ بھی نہیں ہونے والامسلم لیگ ن آزاد کشمیرکی قیادت نے کسی کی اقتدارمیں حصہ نہ دینے کا اصولی فیصلہ کررکھاہے راجہ فاروق حیدر،سردارسکندرحیات خان اوربرجیس طاہر نے سوچ سمجھ کر ٹھیک ٹھیک فیصلے کیے ہیں ان کی معاونت کے لئے درجنوں مسلم لیگی رہنما بھی موجود ہیں آخران کی کریڈبیلٹی کا سوال ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مسلم کانفرنس کے ساتھ اتحاد ہی کرنا ہوتا تو آزاد کشمیرمیں مسلم لیگ ن بنانے کی کیا ضرورت تھی حالات بتاتے ہیں کہ اس مرتبہ آزاد کشمیرکے عام انتخابات میں بڑے گھمسان کارن پڑے گا تحریک ِ انصاف کے بیرسٹر سلطان تحریک ِ انصاف کے پلیٹ فارم پراپنے حریفوں موجودہ برسرِ اقتدار پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو ٹف ٹائم دینے کیلئے حکمت ِ عملی ترتیب دے رہے ہیں ان حالات میں چوہدری عبدالمجید کیا کریں گے، لیکن یہ الیکشن کشمیر کی کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیئے جیتنا آسان نہیں ہو گا اب اور بھی پیپلز پارٹی کو کشیدگی سے بچناہوگا کیونکہ اب دو حکمران جماعتوں میںٹکرائوں کے نتیجہ میں اب بیرسٹر سلطان اورسردار عتیق حالات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ان کو حالات سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیے کیونکہ ایک خاص بات یہ ہے ۔
آزاد کشمیر کے عام انتخابات کی تیاری میں سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف اتنی گندی زبان استعمال کررہے ہیں کہ پڑھنے اورسننے والے شرم سے پانی یانی ہوتے جارہے ہیں ان میں کچھ وفاقی وزراء ساری حدیں پارکرچکے ہیں ایسے لوگ قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے ہیں توپھر توبہ ہی بھلے الیکشن اپنی جگہ پر لیکن ایسا طرز ِ عمل تو کوئی دشمنوں کیلئے بھی روا نہیں رکھنا پسندکرتا سیاسی مخالفین کی بجائے جنگ کا میدان غاصب بھارتی حکمرانوں کیلئے گرم کیا ہوتا تو آج شاید مقبوضہ کشمیر آزادہوچکا ہوتا آخر سیاسی مخالفین بھی آپ کے اہل ِ وطن ہیں کچھ اخلاق کے تقاضے ہوتے ہیں کوئی شر م ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے کسی بھی سیاستدان کو اخلاق باختہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔