تحریر: تنویر ختانہ پچھلے کچھ دنوں سے مانچسٹراور گرد و نواح میں صدر آزادکشمیر مسعود خان کی آمد کے بعد جلسوں کا ایک سیل پیکج متعارف ہوا ہے جس سے ہر وہ شخص فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جس کا شاید دور و نزدیک سے بھی نہ کشمیر اور اس کی عوام سے کوئی تعلق ہو۔ تو اس سیل کا آغاز پاکستان کے دفتر خارجہ کے سابق نمائندہ اور چین میں پاکستان کے سفیر رہنے والے مسعود خان کی آمد سے ہوتا ہے۔ لیکن نہ تو ان کی آمد سے اب تک کشمیر کے کاز کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہی آگے ہوگا بلکہ یہ دورہ کشمیر کے کاز کو نقصان ہی پہنچا پایا ہے۔
اتنے سنئیر اور زیرک سفارتکار ہونے کے باوجود انھیں کچھ مفاد پرستوں نے استعمال کیا ہے۔ نارتھ آف انگلینڈ جہاں کشمیریوں کی آبادی شاید سب سے زیادہ ہے وہاں یہ کسی بھی تقریب میں سو سے زیادہ لوگ جمع نہیں کر سکےکیونکہ ان کا مقصد کشمیر نہیں شاید کچھ اور تھا اگر انھیں صرف جیو، سماء اور دنیا سے ہی خطاب کرنا تھا تو یہ کام تو وہ وہ مظفر آباد میں بھی کر سکتے تھے حکومت کے اتنے پیسے ضائع کرنے کا جواز نہیں بنتا تھا سابق سفارتکار کی حیثیت سے ان کا کام برطانوی پریس اور برطانوی لاء میکرز تک کشمیر کے اس ایشو کو پہنچانا تھا مگر بد قسمتی سے سیلفی گروپ نے انھیں نہ صرف استعمال کیا بلکہ کشمیری عوام کے خون کا بھی خوب مذاق بنایا۔
Flag Hoisting
راچڈیل کے شھر میں پرچم کشائی کی تقریب بھی پچاس سے زیادہ لوگ اکھٹے نہ ہو سکے مانچسٹر میں کونسلروں سے ملاقاتوں سے کیا مسلئہ کشمیر حل ہو گا جو کونسلرز اپنی وارڈ کے مسائل نہ حل کر پائے وہ مسلئہ کشمیر حل کریں گےبھئ خوب ہے۔ان تقاریب میں نہ تو سکھ برادری جو کہ کشمیریوں کے بعد ریاست جموں کشمیر کی آزادی کے سب سے بڑے سپورٹر ہے کو مدعو کیا گیا اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو جن کے سامنے صدر صاحب ثبوت رکھتے کہ بھارتی افواج یہ مظالم نہتے کشمیریوں پر ڈھا رہی ہیں لیکن صرف فیس بک پر یوم تاسیس کا پوسٹ اور پرچم کشائی میں میرے وطن تیری جنت میان آئیں گے اک دن اس کا حل قطعا نہیں ہے۔
لیکن شاید کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی شاید کسی کے ذہن میں پلاٹ تو کسی کے ذہن میں ٹھیکے تھے۔ حقیقی معانی میں کسی کا مقصد بھی شاید کشمیر کی عوام کی ساتھ اظہار یکجہتی نہیں تھا۔ صحافتی رویوں نے بھی اس دورے سے مجھے بے حد بد ظن کیا کسی ایک صحافی نے بھی کشمیری عوام یا کشمیر پالیسی پر سوال کیا صحافیوں کی توجہ کا مرکز تصاویر رہیں کیا کسی نے بھی بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت کی آزاد کشمیر حکومت کی پالیسی معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آپ سفارتی طور پر کیا کر رہے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے بنی درجنوں تنظیموں نے بھی اس مسلئے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ کیا کسی کے ہاتھ فاتحہ خوانی کے لیے اٹھے کیا ایک بھی ویڈیو یا انفارمیشن کسی بھی پریس کانفرنس میں بھارتی مظالم کے حوالے سے شئیر کی گئ کیاصدر صاحب نے بریف کیا کہ برطانوی دورے میں کس سے ملاقات کر ینگے کشمیر کے مسلئے کو کیسے دنیا کہ سامنے لائیں گے۔ صدر صاحب کا یہ دورہ ابتک ناکام اور سفارتکاری کے اصولوں سے بلکل منافی ہے۔اور پہلے کی طرح ایک بار پھر کشمیر صرف سیاست کی بھینٹ چڑھا ہے اور شاید آگے بھی۔۔۔