تحریر : میر افسر امان ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جسے جبراً بھارت نے غلام بنایا ہوا ہے۔ کشمیر میں ٩٠ فی صد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔اخلاقی، ثقافتی، مذہبی، علاقائی اور بین الاقوامی طور پر بھی کشمیر کو پاکستان کا حصہ ہوناچاہیے۔ پاکستان کے بانی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے تقسیم کا جو فارمولہ پیش کیا تھا اور جسے جمہوری طریقہ سے منظور بھی کرایا تھا کہ برصغیر میں دو قومیں رہتی ہیں ایک ہندو اور دوسری مسلمان۔شروع میں قائد اعظم بھی نے بھی کانگریس کا ساتھ دیا تھا۔اس لیے کہ انگریزوں سے ملک آزاد کرایا جائے ۔ مگر مسلمانوں کے ساتھ جب ہندوئوں کے تعصب کو قریب سے دیکھا تو اس سے رائیں جدا کر لیںجس کا اعتراف بھارت کے سابق وزیر خارجہ اپنی کتاب میں بھی کر چکے ہیں۔قائد نے دوقومی نظریہ کو ثابت کرنے کے لیے کہا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے لیڈرز الگ ،ان کا مذہب الگ، ان کے رواج الگ، ان کی ثقافت الگ ہے۔ ایک قوم گائے کو ذبح کرتی ہے دوسری قوم اس کی پوجا کرتا ہے۔
ان دلیلوں کے بعدپاکستان دو قومہ نظریہ کے تحت وجود میں آیا۔ کشمیر کو بھی اسی نظریہ کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جیسے صوبہ سرحد اور صوبہ مشرقی بنگال شریک ہوا تھا۔ بھارت نے کشمیر پر فوج کشی کر کے اس پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان کی فوج اورقبائل نے اس کے جواب میں کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے کاروائی کی اور موجودہ ٣٠٠ میل لمبا اور ٣٠ میل چوڑا حصہ آزاد کر لیا جسے ہم آزاد کشمیر کہتے ہیں۔ پاک فوج سری نگر تک پہنچنے والی تھی کہ نہرو اقوام متحدہ میں گئے اور کہا کہ حالات صحیح ہونے پر کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دیا جائے کہ وہ پاکستان میں شریک ہونا چاہتے یا بھارت میں جہاں خود مختیاری کا ذکر نہیں ہے۔اس وعدہ پر جنگ بند ہوئی۔بھارت اس وعدہ سے پھر گیا اور آج تک یہ تنازہ ویسے کا ویسا ہی کھڑا ہوا ہے۔ بھارت نے ٨ لاکھ فوج کشمیر میں لگائی ہوئی۔جس نے پانچ لاکھ کشمیری کو شہید کر دیا ہے۔
دس ہزار عزت مآب خواتین کی اجتماہی آبرو ریزی کی گئی۔کشمیریوں کی اربوں روپے کی مالیت کی پراپرٹیز کو گن پائوڈر چھڑک کر خاک کستر کر دیا گیا۔ ہزراوں کشمیریوں کو قید کے دوران آپائچ بنا دیا گیا۔اب بھی ہزاروں نوجوان بھارت کی قیدمیں بند ہیں۔ہزاروں نوجوانوں کوغائب کر دیا گیا ہے۔درجنوں اجتماہی گم نام قبریں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ایک فرد کو پکڑنے کے لیے سرائیل کی طرح پورے گھر کو بارود سے اڑا دیا جاتا ہے۔ کالے قوانین کے تحت کشمیری ظلم کی نگری میں زندگی گزار رہے ہیں۔ان حالات میں آج کے جسارت کے میں ایک سینئر ترین صحافی آصف جیلانی جو لندن میں مقیم ہیںکا مضمون ”کشمیر: ہم سب مجرم ہیں” ہیں پڑھا۔ گو کہ مضمون نگار مسلمانوں اور کشمیریوں کے ہم درد ہیں۔ میں اکثر ان کے مضامین کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں مگر آج کا مضمون میری سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے فرمایابھارت کی ایک خاتون مردولا سارہ بائی کے ساتھ ١٩٦١ ء ملاقات کا ذکر کیا اور کہا کہ خاتون کہتی ہیں کہ شیخ عبداللہ ایک سیکولر شخص تھا ۔اس نے پاکستان کے دو قومی نظریہ کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیاوہ صرف کشمیر کی آزادی چاہتے تھے۔
Pakistan
کہتے ہیں کہ پاکستان اس بات کا ادراک نہیں کیا کہ کشمیری آزدای چاہتے ہیں پاکستان کے ساتھ ملنا نہیں چاہتے۔حکمرانوں اور پاکستانی قوم نے اپنے ذہنوں میں یہ طاری کر لیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ خود غرضی کی کالی پٹی آنکھوں پر باندھ لی ہے کشمیریوں کی قوم پرستی کا ادراک نہیں کیا گیا۔ جب کشمیری بے بسی میں پاکستان کی طرف دیکھتے ہیں تو پاکستان سمجھتا ہے کہ کشمیری پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ سب سے بڑا مجرم جواہر لال نہرو ہے اس نے کشمیریوں کے لبرل لیڈر شیخ عبداللہ کو گیارہ سال جیل میں رکھا جو کشمیر کے بھارت سے الحاق کے خلاف تھا۔مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں کہ نہرو نے اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے محسوس کر لیا تھا کہ اس کی غلط پالیسی کی وجہ سے کشمیری پریشانیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔پاکستان اور بھارت دشمن ہو گئے ہیں عوام کو مصائب کے علاوہ کچھ نہیں ملا۔شیخ عبداللہ کو گیارہ سال قید سے رہائی کے بعدلوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ کشمیر کا آئینی حل چاہتا ہوں۔اس کے بعد شیخ عبداللہ کو پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس پر حکومتی حلقوں میں اختلاف پیدا ہوا تو بمبئی میں کانگریس کے اجلاس میں اپنا موئقف ڈٹ کر پیش کیا۔
چار دن بیماری کی وجہ سے صوفے پر بیٹھے تنقید سنتے رہے پھرایک دم اُٹھے اور کہا پاکستان اور بھارت کشمیر کے مسئلے پر ہلکان ہورہے ہیں۔ یہ سن کر سب کو سانپ سونگھ گیا۔ پھربیماری کی وجہ سے نہرو درادون چلے گئے۔ پھرتین روز بعد انتقال کر گئے۔ شیخ عبداللہ بھی پاکستان سے نامراد لوٹ آئے میں خود ایک صحافی کے طور پر اس اجلاس میں شریک تھا۔ انہوں نے فرمایا یہ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کو حق خودارادیت اور آزادی سے محروم کرنے میں بھارت کے ساتھ پاکستان بھی شریک مجرم ہے۔یوں ہم سب مجرم ہیں۔ اس پر کچھ اس طرح عرض ہے کہ شیخ عبداللہ نہرو کاذاتی دوست اور دو قومی نظریہ اور پاکستان کا مخالف تھا نہرو کے ساتھ مل کر صوبہ سرحد کے دورے پر گیا تھا۔ پاکستان کے خلاف قائدکے مقابلے میں نہرو کے ساتھ ریفرنڈم کی مہم میں شامل تھا۔ ہندوئوں کی آشیر آباد پر کشمیریوں کے قتل عام میں شریک رہا۔
اس کی قبر پر اب بھی فوجیوں کا پہرا اس بات کی دلیل ہے کہ کشمیری اسے نہیں چاہتے۔ کیا پاکستان کے دورے کے درمیان پاکستان اپنے وجود یعنی دو قومی نظریہ سے دستبردار ہو کر شیخ عبداللہ کی سیکولرزم کی منطق مان لیتا۔ نہ جانے مضمون نگار ایسا کیوں سوچتے ہیں۔کیا پاکستانی اپنے قائد کا فرمان کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کو ایک طرف رکھ دیں تو یہ کہاں کا انصاف ہے۔ہم تو دیکھتے ہیں کہ کشمیری ہر روز پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں۔ کہتے ہیں ہم پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں۔ پاکستان سے محبت کا اظہار پورے بھارت میں کرتے ہیں۔
Pakistani Flag in Kashmir
پاکستان کی محبت میں مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ وہ پاکستان سے ملنا نہیں چاہتے۔ علیحدہ آزادی چاہتے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات سامنے تو نظر نہیں آتی۔ ہاں آزاد وطن کے لیے کچھ سیکولر لوگ ضرور موجود ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ خدا نا خواستہ مضمون نگار پاکستان کی بنیاد،دو قومی نظریہ سے الرجک تو نہیں ہو گئے۔ کشمیر تو تحریکِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔اسی بنیاد پر کشمیری پاکستان سے الحاق سے کرنا چاہتا ہے ۔ تمام پاکستانی کشمیر یوںکے ساتھ ہیں۔ کشمیر میں جماعت اسلامی اور حزب ا لمجائدین کے ہزاروں کارکنوں نے شہادتیں دیں ہیں۔ مولانا موددی کا فرمان کہ کشمیر جہاد فی سبیل اللہ سے ہی آزاد ہو کر پاکستان سے مل سکتا ہے۔
جہاں تک نہرو کی سوچ کا تعلق ہے اور جس بات کا ذکر مضمون نگار کرتے وہ حالات کو سامنے رکھ کر پرکھا جائے تو چنکیائی سیاست کاشاخسانہ لگتا ہے۔ وہ یہ کہ دشمن سے دوستی کرو اسے قتل کرو اور پھر اس پر آنسو بھائو۔ اگر نہرو کشمیریوں سے اتنے ہی مخلص تھے تو ان کے مرنے کے بعد ان کی بیٹی اندرہ گاندھی نے کیوں عمل نہیں کیا اس نے تو کشمیری ہونے کے ناطے اپنی چتا کی راکھ کشمیر کے پہاڑوں پر چھڑکنے کی وصیت کی تھی۔نہ جانے مضمون نگار پاکستان کو دولخت کرنے اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے سے بھی لا علم ہیں۔پاکستانی عوام کشمیریوں عوام کے ساتھ ہیں۔
ایک نہ ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہو کر پاکستان سے ملے گا اور تحریکِ پاکستان مکمل ہو گی ۔آصف جیلانی صاحب آپ عمر کے آخری دنوں میں کہیں دو قومی نظریہ سے مایوس تو نہیں ہو گئے جو سیکولرزم کے حامی بنے نظر آتے ہیں ۔ یاد رکھیں پاکستان اور کشمیر کی بقا دو قومی نظریہ میں پنہاں ہے۔ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت آزاد ہو گا انشاء اللہ۔ آپ تنازہ کشمیر کی ناممکن حل کی باتیں کر رہے ہیں۔