گزشتہ روز وطن بھر میں یومِ کشمیر منایا گیا اس دن کو یومِ سیاہ تصور کیا جاتا ہے جموں کشمیر کے حوالے سے دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور پوری قوم اس دن اپنی کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتی ہے یہ روز 1990ء سے منایا جا رہا ہے۔
پر وہی لا حاصل نتائج کوئی بھی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی سیاہ پٹیاں باندھ کر سارا دن ریلیاں نکالی جاتی ہیں پرحکمران اس آویزش پر بھارت سے بات کرنے کی حقیقی دلیری نہیں رکھتے۔ پاکستان اور بھارت کی جانب سے بہت سے دعوے دھرے گئے مگر اس کے باوجود تنازعہ کشمیر کا حل نہیں نکل سکا۔ دونوں ہی ممالک یہ حق جتاتے ہیں کے کشمیر ان کی مملکت کی ضرورت ہے یہ ان کی قومی بقاء اور نظریاتی پختگی ہے۔
ان دعوں کو مضبوط بنایا جاتا ہے تاریخ کی تشریح اورانتخاب کردہ شواہد کے ساتھ بہرحال رویہ دونوں ممالک کے غالب رہنماوُں کو ٹھوس تکرار کی ظرف کھینچ کیے جاتا ہے جو کہ نہ صلح پذیر ہے اور نہ ہی مذاکرات کے قابل ہے۔یہ ایک ذہنی الجھاوُ میں ڈالنے والا بے لگام مسئلہ ہے جس نے دونوں ممالک کو آزادی سے ہی ذچ کر رکھا ہے۔
یہ ابھی بھی ایک بین الاقوامی دلچسپی کا مسئلہ ہے کئی طریقوں سے، کشمیر ایک نسلی مذہبی اور سرحدی جھگڑا ہے اور مصلحتی اور اقتصادی نفع ہے بھارت اور پاکستان کے لیے۔دونوں مُلک د عویدار ہیں اس کے قانونی اوراخلاقی حق کے جو کہ فی الواقع موافقت کرتا ہے موجودہ ریاستی حالات کی اور یہ عملی طور پر ظاہر کرتا ہے کہ 1989ء سے کشمیری ذاتی حقوق کا اصرار چھوڑ چکے ہیں۔
کشمیری مسلمانوں کی جانب سے ایک بڑی بغاوت برپا ہوئی جس نے کشمیر کا چہرہ تبدیل کر دیا اور بندوق کلچر نے جنت نظیر وادی کو شہیدوں کے قبرستان میں تبدیل کر دیا۔ لیکن 11 ستمبر 2001 کو رونما ہونے والے واقعے نے دنیاوی سیاست کا منظر نامہ تبدیل کر دیا، نئے منظر میں پاکستان نے ایک نیا سیاسی قدم اٹھایا کشمیر سے یکجہتی کے لیے ایک مضبوط پالیسی مرتب کی جس سے کشمیری عوام کے حقوق اور ذاتی حدود کا تعین ہو سکے۔
بھارت نے ہمیشہ سے ہی پاکستان پر دہشتگردی، انتہاپسندی اور جارحیت کا الزام عائد کیا ہے مگر اسلام آباد سے بھیجے گئے نقظہ نظر نے بھارت کو باز کیا اور کشمیری مدد کو ہر دلعزیز کوشش بنایا۔ کشمیر جنوبی ایشیاکو نقطہ اشتعال ہے اور یہ قابلِ یقین ہے کے خطے میں جوہری سامان کی موجودگی نے پہلے ہی اسے قیامت کا منظر بنایا ہوا ہے اس پریشانی کو بیرونی قوتوں کے ذریعے مکایا جا سکتا ہے دونوں ممالک کے پاس موقع ہے کہ وہ اس جھڑپ سے اپنے آپ کو نجات دلوئیں ایک قابلِ قبول حل کے ساتھ بغیر کسی جانی ومالی نقصان کے ہوئے۔
کشمیری مسلمان ایک بھاری قیمت ادا کرتے ہیں اپنی دلیر جدوجہد کی جو کہ بے پناہ فساد پھیلاتا ہے ان کے حقوق کے حصول کی کوشش میں، کشمیری بے یقینی اور محرومی کے درمیان جھُول رہے ہیں،وہ بدبختی اور جبر وستم سے گزر رہے ہیں بھارے کے غیر قانونی قبضے میں۔ معمہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیاں ابھی بھی ایک ہڈی کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے جو دنگا برپا ہونے کا سبب بنتی ہے حالات مزید ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔
Indian Army Kashmir
بھارت نے کئی سیکیورٹی قراردادیں منظور کیں جو کہ کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کرتی تھیں مگر پھر بھارت ان معاہدوں سے پھِر گیاجو اس نے بین الاقوامی اتحادین اور کشمیر سے کئے تھے۔کشمیریوں پر ظلم و ستم بھارتی سلطنت کی معصوم کشمیری لوگوں پر کھلی دہشتگردی تھی۔ جلیاں والا خونریزی کا حکم جنرل ریکس ڈائر نے جاری کیا جو کہ کم تباہ کن نہ تھا۔اتنے خطرے جھیلنے کے باوجود کشمیری پُر جوش ہیں انہوں نے بھارت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا غیر مہذب اندز میں۔ آزادی کے نام پر کشمیریوں کے ہاتھ پیر کاٹے گئے انہیں قتل کیا گیا ان کی عورتوں کے ساتھ ذیادتی کی گئی ان کے بچوں کی بہترین مستقبل کی آرزو کو لوٹ لیا گیا۔
اس جھڑپ نے کشمیریوں میں تشدد کے کلچر کو عام کر دیا وہ لوگ انتہا پسند بن گئے جن کو شفیق تصور کیا جاتا تھا۔ اس کا نقصان نہ صرف کشمیر کو بلکہ پاکستان میں اور بھارت میں مقیم پاکستانیوں کو براہِ راست یا بلاواسطہ ہوا، پاکستان بے جا دفاع پر خرچ کرتا ہے جب کہ ایک رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ہماری ایٹمی ٹیکنالجی بھارت سے بہت بہتر ہے دونوں ممالک کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی بجائے امن عمل میں پیش رفت کرنی چاہیے۔
مہلک ہتھیاروں کی تجلیل نے دشمن سے بدلا لینے کی خواہش میں شدت اختیار کردی ہے اس تصادم کو کسی طریقے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ اس وادی میں جو واقعے پیش آئے ان کوٹھنڈے دماغ سے مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے انہیں اصولی طریقہ کار کے ذریعے کشمیر کے حالات جائزہ لینا ہو گا، پاکستان نے مختلف مصلحتیں اختیار کر کے اس کا حل نکالنے کی کوشش کی مگر اس کا حل محال ہے، پاکستان اقوامِ متحدہ میں لائن آف کنڑول سمیت دیگر مسائل رپورٹ کرتا ہے مگر بھارت کے سیاچین پر قابض ہونے کی رپورٹ نہ دے سکا۔ 1965ء کی جنگ بھی ہمارے کشمیری مجاہدیں کے ساتھ ہونے پر پیش آئی،کشمیریوں پر ہوتے ہوئے مظالم کو نصف صدی سے ذیادہ وقت ہو چکا ہے ان کی مظلومیت کا آغاز 1931ء میں ڈوگرا کی حکمرانی سے ہوا۔
ان کی امیدوں کے برخلاف برِصغیر کے بٹوارے کے بعد انہیں بانٹ دیا گیا جب کے وہ تین جنگوں کا انجام بھی بھگت چکے تھے۔ مغلی دور میں کشمیر مسلمانوں کی آبادی سے سرشار ہوئے بدقسمتی سے جب مغل حاکمیت کا خاتمہ ہوا تو ریاست برٹش ایسٹ کمپنی کو 1840ء میں مل گئی جس نے اسے ایک سکھ غدار راجہ گلاب سنگھ کو 1846ء میں 7.5 ملینز میں بیچ دیا جس کے بعد کشمیریوں کی آبادی پر ظالم سکھوں نے حکمرانی کی۔ جب برِصغیر کو بانٹا گیا لارڈ ماوُنٹ بیٹن نے ریڈکلف سے کہا کہ وہ مسلمانوں کی اکژیت والے علاقے گرداس پور جو کہ مشرقی پنجاب میں تھا کو بھی بھارت کو بطورِ انعام دے دے اس ظالم نے ہی بھارت کو کشمیر کے ساتھ جوڑا جس سے بھارت کشمیر پر غالب آگیا کیونکہ گرداس پور ہی نے بھارت کو کشمیر سے جا ملایا۔ 1962ء میں پاکستان کے پاس کشمیر فتح کرنے کا سنہری موقع تھا جب بھارت چائنہ کے ساتھ جنگ میں مشغول تھا مگر بھارت نے امریکن صدر کینڈی کی منت سماجت کی کہ وہ پاکستان سے کہے کے ابھی کشمیر پر کوئی فیصلہ نہ کر ے بعد میں امریکہ مسئلہ کشمیر کو خود حل کروائے گا امریکن صدر نے جب یہ بات جنرل ایوب سے کہی تو وہ بلا تکلف مان گئے انڈیا اور چین جنگ کے بعد شیخ عبدالللہ کشمیر ایشو پر بات کرنے پاکستان آئے مگر جواہر لال نہرو مر گیا جس پر اسے واپس جانا پڑا۔
1965ء میں ایوب کو اپنی کی گئی غلطی کا احساس ہوا اور اس نے ایک گوریلا آرمی تشکیل دی جس نے کشمیر جا کر بہت تباہی مچائی مگرعدم منصوبہ بندی کے باعث انڈین آرمی کے ہاتھوں مارے گئے۔جس کے ردِعمل میں پاکستانی فوج آزاد کشمیر فوج کے ہمراہ فائز بندی لائن اعلان کے بعد عبور کر گئی اس جنگ کے دوران ایک ایسا موقع آیا جب پاکستانی فوج سری نگر کو قبضے میں لے چکی تھی مگر سویت یونین کے ایوب خان پر اثر واثوخ نے جنگ کا التوا ء کردیا اس طرح پاکستان نے کشمیر حاصل کرنے کا موقع گنوا دیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان 1971ء میں دوبارہ جنگ لگ گئی یہ لڑائی مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کے نتیجے میں ہوئی جو کہ ابایک آزاد ریاست ہے جو بنگلادیش کہلاتی ہے۔ 1990ء سے کشمیری بغاوت مسلمانوں کی ذیادہ آبادی والے علاقے جموں اور کشمیر میں ہے 1990 کے درمیان سے نہ خطے میں بغاوت بلکہ مسرع جوہری بحران بھی ہر سو پیدا ہوا۔ خطے میں سیکیوڑتی حدشات کی بناء پر قوم پرستوں کو جدید ہتھیار جاری کیے گئے۔1997ء میں 350,000 انڈین فوجی پورے کشمیر میں پھیل گئے بھارت کی طرف سیاچین گلیشئیر جو کہ کشمیر کے خطے کے شمال و مشرق کی طرف واقع ہے چڑھائی کی جارہی تھی پاکستانی فوج ہم منصبون سے سات میل دور تھی بولٹورہ گلیشئیرپر موجود تھی۔
یہاں موت کی شرح بہت بڑھ چکی تھی یہاں پر لڑائی کا آغاز 1984ء سے ہو چکا تھا کشمیری جنگجو وُں نے اپنا روحانی استاد افغانیوں کو تصور کر رکھا ہے مگر ان کے پاس منصوبہ بندی نہیں تھی اور نہ ہی وہ زمانہ شناس تھے۔ کارگل ایشو سے قبل د نیا بھر کی نظریں بھارت پر تھیں کے وہ کشمیر میں کیوں رکے ہوئے ہیں مگر کارگِل ایشو نے دنیا کو فوکس وہاں سے بالکل ہٹا دیا بھارت اپنی حکمتِ عملی سے سب سے داد سمیٹ رہا تھا اور پاکستان کے خلاف پروپوگنڈا کیا جا رہا تھا۔
Kargil Operation
کارگل آپریشن کے دوران 1999ء میں پاکستان نے اسے موضوع کو بین الاقوامی بنانے کی کوشش کی کے بھارت آزادی پسندوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک بند کرے مگراس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ کشمیر کو قائدِاعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہے حتیٰ کے قائدِ ثانی خود اس کے لیے کوشاں رہے ہیں اور ایک بار تو قائد نے اس وقت کے جنرل کو جنگ کرنے کا حکم دیا تھا جو اس نے نہ مانا۔”سنا ہے بہت سستا ہے خون اِک وادی کا جسے سب کشمیر کہتے ہیں” رب زولجلال کشمیری بھائیوں پر رحم فرمائے اور ان قائدین کو شجاعت و مصلحت عطا فرمائے کے وہ کشمیر کو آزاد کروا سکیں (آمین)