ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا

Kashmir Issue

Kashmir Issue

تحریر : زین العابدین

مسئلہ کشمیر پاکستان، ہندوستان اور کشمیر ی حریت پسندوں کے درمیان مقبوضہ کشمیر کی ملکیت کا تنازع ہے۔اس مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔تقسیم ہندوستان کے موقع پر یہ تنازعہ کھڑا ہو ا تو دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی۔دوسری جنگ 1965ء اورتیسری جنگ 1999ء میں لڑی گئی۔اس کے علاوہ لائن آف کنٹرو ل پر دونوں طرف سے شروع سے آج تک گولہ باری ہوتی رہی ہے۔جس کے نتیجہ میں بہت سی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں میں دو طرح کے گروپ پائے جاتے ہیں۔ایک گروپ کشمیر کی مکمل خود مختاری چاہتا ہے اور دوسرا اسے پاکستان کا حصہ بنتا دیکھنا چاہتا ہے۔بھار ت پورے جموں کشمیر ریاست کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔اور فی الوقت مقبوضہ کشمیر جموں لداخ اور سیاچن گلیشئر پر بھارت کا قبضہ ہے۔ جبکہ باقی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے پاس ہے۔تقسیم ہندوستان کے دور سے لے کر آج تک عالمی دنیا کی بڑی طاقتوں کی توجہ اس مسئلہ پر رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اپنی آزادی کی خاطر اپنی جانوںکے نذرانے پیش کر رہے ہیں ۔جبکہ بھارت ظلم و ستم کی داستان رقم کرنے میں مصروف ہے۔

حال ہی میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے دورہ امریکہ کے بعد کے حالات میں اچانک تبدیلی رونما ہوئی۔امریکہ کا یہ بیان آیا کہ و ہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کو تیار ہیں اور اس معاملے میں پاکستان سے تعاون چاہتا ہے۔اس بیان کے فوراََ بعد ہی بھارت کی طرف سے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔اسی دوران مودی سرکار کا مقبوضہ کشمیر میں مزید فوجیں اتار دینا اس جیسے کئی عصر حاضر کے واقعات میں عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کچھ ہونے جار ہا ہے۔کیا ان تمام واقعات کا اچانک یکے بعد دیگرے رونما ہونا حسن اتفاق ہے؟یہ و ہ سوال ہے جس کا جواب اگر ہاں میں دیا جائے تو یقینا حماقت سے کم نہیں جانا جائے گا۔آخر امریکہ کو کیا ضرورت پڑی کہ و ہ اس طرح مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا اعلان کرے ۔فوراََ ہی آرٹیکل 370کا خاتمہ بہت اہم واقعہ ہے۔یاد رہے کہ آرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک متنازعہ ریاست کی حیثیت حاصل تھی۔اس طرح آرٹیکل کے مطابق مقبوضہ کشمیر کو آئین سازی کا حق حاصل تھا۔جبکہ بھارت نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔

بھارتی صدر نے مقبوضہ کشمیر کے متعلق چار نقاتی ترمیم پر دستخط کیے۔جس کے مطابق مقبوضہ کشمیر آج سے بھاری یونین کا علاقہ تصور ہو گا۔مقبوضہ کشمیر اب ریاست نہیں کہلائے گی۔نئے لداخ کو مقبوضہ کشمیر سے الگ کر دیا گیا۔یوں آرٹیکل 370کے خاتمہ سے خود مختار علاقہ کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔غیر مقامی افراد مقبوضہ کشمیر میں سرکاری نوکریاں حاصل کر سکیں گے۔مقبوضہ کشمیر کی قیادت پہلے ہی یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ بھارت کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کا خواہاں ہے۔موجود ہ انڈیا حکومت کی پالیسیاں پاک امریکہ تعلقات اور موجودہ سیاسی صورتحال یہ سب مل کر مستقبل کی ایک واضح تصویر بنا رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پرویز مشرف کے دور میں امریکہ کے تعاون سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک فارمولے پر اتفاق ہونے جار ہا تھا۔مگر حالات نے ساتھ نہ دیااس فارمولے کے تحت آزا د کشمیر پاکستان کے حصے میں جب کہ جموں بھار ت کے حصے میں آنا تھا۔باقی سری نگر وغیرہ کو دس سال کے لیے اقوام متحدہ کے حوالے کر دیا جانا تھا۔طے ہو رہا تھا کہ دس سال کے لیے دونوں ممالک مخصوص علاقے میں مداخلت نہیں کریں گے۔دس سال گزرنے کے بعد کشمیریوں سے الحاق کے بارے میں رائے لی جائے گی۔حالیہ واقعات کے بعد یہ فارمولہ اب کسی حد تک سمجھ آ رہا ہے۔پتہ یہ چلتا ہے کہ یہ بھی امریکہ کی چال تھی اور امریکہ ایشیا میں دخل اندازی میں آسانی کے لیے ایک مخصوص اڈا چاہتا تھا۔مگر حالیہ صورت حال کچھ اہم پالیسیوں پر بھی مشتمل نظر آتی ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ کشمیر اور لداخ کو یوپی میں شامل کر دیا جائے گا اور جموں کو آزاد حیثیت ملے گی۔ایک لمحے کے لیے یہ سوچیں کہ کیا امریکہ کسی بھی اعتبار سے مسلمانوں کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے قابل ہے؟یہ سوچتے ہی مسلم ریاستوں فلسطین ،عراق اور شام وغیر ہ کے حالات ذہن میں گردش کرتے ہیں ۔

فلسطین کو دیکھ لیں جہاں اسرائیل نے ظلم وستم کی انتہا کر دی ۔ساری دنیا سے یہودی اکٹھے کر کے وہاں آباد کر دیئے گئے۔فلسطین کی عوام کے حقوق غضب کر دئیے گئے اور وہ آ ج تک اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ میں تین سو سے زائد قراردادیں پیش کی گئی ہیںاور اسی امریکہ نے ویٹو پاور استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے ظلم و ستم کا ساتھ دیا ۔وہی امریکہ آج مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ یقینا ان باتوں کو سمجھنے کے بعد ہر کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ عالمی سامراج اپنی مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ٹرمپ کے بارے میں امریکی میڈیا خود کہتا ہے کہ ٹرمپ ہزار بار اپنا موقف تبدیل کرتا ہے۔کیا ٹرمپ کی کسی بات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟بظاہر جو ہوتا ہے نظر آ رہا ہے ۔نا جانے یہ اندر کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کھیل میں اپنے بھی استعمال ہو رہے ہیں ۔

برحال بھارتی حکومت کے حالیہ اقدام کسی طرف آنے سے پہلے موجودہ بھارت کی حکومت کا جائز ہ لے لیںتو اس وقت بھارت کا وزیراعظم و ہ شخص ہے جو کہ عالمی دہشت گردوں کی لسٹ میں رہ چکا ہے۔اس نے ہندو مسلم فسادات کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کیا۔حصول اقتدار کے بعد کشمیر میں اس کے کالے کرتوت کھل کر سامنے آ گئے۔اس مودی اور بے جے پی کو اپنے ملک میں اپوزیشن کے جانب سے شدت کے ساتھ مخالفت کا سامنا ہے۔یقینا اپوزیشن اور بھارتی عوام بھی جانتی ہے کہ انڈیا کا حالیہ اقدام کہیں انڈیا کے ٹوٹنے کا سبب نہ بن جائے۔وہ برصغیر کی تاریخ پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ یہ مسلمان ہی تھا کہ جس نے انگریز کو برصغیر سے بھاگنے پر مجبور کیا۔جس کی بدولت پاکستان اور بھارت آزاد ریاستوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بھارت کی اندرونی صورتحال دیکھیں تو بے شمار تحریکیں نظر آئیں گی۔جن می خالصتان کی تحریک کسی بھی طرح کشمیر میں اٹھنے والی تحریکوں سے کم نہ تھی مگر اسے بے رحمی سے کچلا جا رہا ہے۔جس طرح اصلاحات کے نام پر پنجابی سکھوں کی کمرتوڑی جا رہی ہے۔اس کی مثال نہیں ملتی ۔بھارت کی اندرونی صورتحال اتنی خرا ب ہے مگر مودی سرکار دوسری طرف سے امریکی اور اسرائیل پالیسیوں پر عمل درآمد کرتی نظر آتی ہے۔

مودی حکومت کا آرٹیکل 370کا خاتمہ اس کی واضح دلیل ہے کہ کیا کشمیر فلسطین بننے جا رہا ہے؟ اس کا جواب ہمیں یوں ملتا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد غیر مقامی افراد مقبوضہ کشمیر میں سرکاری نوکریاں حاصل کر سکیں گے۔ جس طرح فلسطین میں ساری دنیا کے یہودی اکٹھے کر کے اسرائیل کی ریاست قائم کی گئی۔ بالکل اسی طرح بھارت کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنا چاہتا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مختلف بھارتی علاقوں سے ہندوئوں کو کشمیر لا کر آباد کیا جائے گااور یوں ریاست مقبوضہ کشمیر میں ہندو بستیاں بسا کر اس کی مسلم اکثریت کو ختم کر دیا جائے گا۔حالیہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک حریت کے ایک رہنما سید علی گیلانی صاحب کی ایک ٹویٹ بھی نظر سے گزر گئی جس میں وہ کشمیری مسلمانوں کی مدد کے لیے پکارتے نظر آ تے ہیںاور اسی خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں کہ ممکنہ صورت میں کشمیریوں کی نسل کشی کی جائے گی۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھیں تو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بر سر بیکار ہیں اور مریم نواز کی حالیہ گرفتاری سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ کہیںغائب ہی ہو گیا۔ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر یوں مسکراہٹیں ہوتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے انہیں مسئلہ کشمیر کا پتہ ہی نہیںاور ساتھ میں ہمارے میڈیا کی توجہ بھی مریم نواز کی گرفتاری کی طرف زیادہ ہے۔جب کہ مسئلہ کشمیر پر نظرا ندازی ہے کام لیا جار ہاہے۔خلاصہ یہ ہے کہ مظلوم کشمیر کو ختم کرنے کی سازش صرف مودی سرکار کی نہیں بلکہ اسرائیل اور امریکہ جیسی قوتیں اس سازش میں سر فہرست ہیں۔ہماری حکومت کا نرم لہجہ بہم پالیسیاں بھی عوام کے لیے سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں۔ان حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عنقریب شہ رگ کاٹ دی جائے گی۔جسم کو درد تک محسوس نہیں ہو گا۔

Zain ul Abideen

Zain ul Abideen

تحریر : زین العابدین