جموں و کشمیر میں سیلاب سے محشرجیسی جو صورتحال پیدا ہوئی تھی، اس کی اگرچہ کوئی دھول ہوا میں اڑتی ہوئی نظر نہیں آئی تاہم سیلابی پانی جن جن علاقوں سے گزرتا گیا، وہاں ضرور سڑکوں اور گلی کوچوں میں زندگی کے آثار لوٹ آنے سے گرد و غبار ضرور تھم گیا ہے۔ پانی نے اپنے ساتھ نہ صرف بستیوں کی زندگی اجاڑ دی بلکہ ہنستے چہروں سے خوشی کے آثار بھی مٹا دئے، ابھی بھی شہر و دیہات میں سسکیوں اور آہ و بکاہ کی فضاء دکھائی دے رہی ہے لیکن زندگی کو رواں دواں کرنے کیلئے ٹوٹے حوصلوں سے لوگ بازاروں کی طرف چہل قدمی کرتے نظر آرہے ہیں۔
زندگی کو چلانے کیلئے وقت کے ظالم لمحوں سے خود کوچھڑانا ہی زندگی بسر کرنے کی علامت ہوتی ہے اور غالباً کشمیری قوم نے اس بات کا تہیہ کرلیا ہے کہ گزشتہ 24 برسوں سے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پران پر جو قیامتیں ٹوٹ پڑیں، اْن سے نکلنے کے حوصلے کو ایک بار پھر پروان چڑھانے کی کوشش شروع کی ہے، ابھی بھی ہزاروں لوگ یا تو ریلیف کیمپوں اپنی امیدوں کا بسترا سمیٹے ہوئے ہیں اور ابھی بھی ہزاروں لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ہاں اپنے دکھ و درد لیکر بسیرا کئے ہوئے ہیں۔ اس امر کے باوجود کہ حکومت کی جانب سے محض طفل تسلیاں ہی ہاتھ آئی ہیں، متاثرہ لوگوں نے اپنے حوصلوں کو سمیٹ کر مستقبل کی راہ ایک بار پھر متعین کرنے کی کوشش شروع کردی ہے
شہر اور دیہات کے بازاروں میں اگرچہ پندرہ دن قبل کی رونق نظر نہیں آرہی ہے، نہ ہی خوشی بھری چہل قدمی کہیں دکھائی دے رہی ہے لیکن کماحقہ زندگی واپس پٹری پر لوٹ آنے کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ دیہات کی اگر بات کی جائے تو غریب کسانوں کے نہ صرف آشیانے لٹ گئے بلکہ ان کی اراضی، جس پر ان کی زندگی کا سارا دارومدار تھا، بھی نہ رہی، نہ میوہ صنعت سے وابستہ لوگوں کی امیدیں بھر آنے کی کوئی امید ہے اور نہ ہی کاروباری طبقہ سے وابستہ افراد کو نئے سرے سے روزی روٹی کمانے کا کوئی سامان میسر ہے
شہر میں بھی بالکل ایسی ہی صورتحال ہے، جن جن علاقوں سے سیلابی پانی نے لوگوں کا سب کچھ اپنے ساتھ بہالیا، اْن علاقوں میں اگرچہ ابھی تک دکانیں اور کاروباری و تجارتی مراکز بند ہیں لیکن جو بھی مضافاتی علاقے ہیں، جہاں سیلاب لوگوں کو متاثر نہ کرسکا، وہاں لوگوں کی معمول کی نقل و حرکت دیکھنے کو مل رہی ہے، بھارت سرکا رنے غیر ممالک میںموجود کشمیریوں اور عالمی اداروں کو مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان بھجوانے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے جس پر حریت کانفرنس (گ)، حریت کانفرنس (ع)، جے کے ایل ایف اور دیگر کشمیری جماعتوںنے شدید احتجاج کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ بھارت ہمیشہ کشمیریوں کے ساتھ غلاموں جیسا برتائو رکھنا چاہتا ہے۔
مقبوضہ کشمیرمیں رواں ماہ کے آغاز میں آنے والے شدید سیلاب کے باعث 10 کھرب سے زائد مالیت کی املاک تباہ ہوئی ہیں’ تین سو سے زائد دیہاتوں سمیت سری نگر میں بری طرح تباہی ہوئی اور لاکھوں افراد متاثر ہو ئے ہیں جبکہ انٹرنیٹ سروس تاحال بحال نہیں ہو سکی ہے۔ حریت کانفرنس (گ) مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس(ع) کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق نے انکشاف کیا ہے کہ سیلاب کے پہلے دن انہوں نے اقوام متحدہ، یونیسف، او آئی سی اور مسلم ممالک سمیت عالمی برادری سے فوری مددکی اپیل کی تھی جس پرعالمی برادری نے مثبت جواب دیا اور بہت سے لوگ کشمیری عوام کیلئے امدادی سامان بھجوانا چاہتے تھے
تاہم بھارتی حکومت نے انہیں امدادی سامان بھجوانے کی اجازت نہیں دی جس سے اس کی کشمیریوں کے ساتھ کھلی دشمنی ایک بار پھر واضح ہو گئی ہے ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ کٹھ پتلی حکومت بھی کہیں نظر نہیں آرہی اور بھارتی فوج بھی محض اپنے فوجیوں اور سیاحوں کو بچانے میں مصروف رہی جس کے نتیجہ میںجگہ جگہ بھارتی فورسز پر پتھرائو اور احتجاج کے واقعات پیش آئے۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان،جے کے ایل ایف کے چیئرمین محمد یسین ملک، شبیر احمد شاہ اور آسیہ اندرابی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے
Kashmir Floods
وہ مقبوضہ کشمیر کے متاثرین سیلاب کی بھر پور مدد کرے تاکہ ان کی مشکلات کم ہو سکیں۔ مسلم دنیا میں موجود کشمیری اور دیگر مسلمان مقبوضہ کشمیر امداد بھجوانا چاہتے ہیں لیکن بھارت سرکار عالمی اداروں کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد نہیں کرنے دے رہی ۔ بھارتی حکومت بین الاقوامی امدادی اداروں کو اپنے وفود اور ریلیف کا سامان مقبوضہ کشمیر میں بھیجنے کی اجازت دے۔ مقبوضہ کشمیر کے ایوان صنعت و تجارت کی ایک رپورٹ میں کہا گیاہے کہ شدید سیلاب کے باعث مقبوضہ علاقے میں 10 کھرب سے زائد مالیت کی املاک اور کاروبار تباہ ہوئے ہیں۔
صرف وادی میں سیلاب کی وجہ سے 60 ہزارکروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہو ا اور کشمیر میں سیلاب سے کم از کم 55 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں جو علاقے کی کل آبادی کا 65فیصد سے زائد ہے۔ کل چھبیس سو سے زائد دیہات متاثر ہو ئے ہیں۔ جنوبی کشمیرمیں سب سے زیادہ متاثر ضلع کولگام ہوا ہے جہاں 121دیہات زیر آب آگئے جس کے باعث 3000لوگ بے گھر ہوئے۔شوپیاں سے کم متاثر ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاں بدترین سیلاب ہے تو پاکستان بھی بھارتی آبی جارحیت کی وجہ سے سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے ۔بھارتی وزیر اعظم مودی کی آزاد کشمیر کے سیلاب متاثرین کی پیشکش کے بعد پاکستانی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے سیلاب متاثرین کو امداد کی پیشکش کی لیکن حکومت پاکستان نے عملا کوئی اقدام نہیں کئے
حریت رہنمائوں نے اپیل بھی کی سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے لیکن حکومت پاکستان کو دھرنے والوں سے نمٹنے کے علاوہ کوئی فرصت ہی نہیں۔پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا ذکر نہ کرنا قابل افسوس ہے، مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت سے دوستی قبول نہیں ہے حکومت کشمیریوں کی امداد کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور بین الاقوامی اداروں سے اس سلسلے میں اپیل کرے اور ریلیف کے لیے راستے کھولے جائیں۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کا بد ترین سیلاب آیا ہے جس سے بڑی تباہی ہوئی 55 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، سات لاکھ درختوں اورمکانوں کی چھتوں پر امداد کے منتظر ہیں کئی لاشیں کیچڑ میں دبی ہیں ابتدائی سروے کے مطابق تین لاکھ مکانات اور چار ہزار دکانیں اور کاروباری مراکز تباہ ہوئے اور کروڑوں روپے کا نقصان ہوا بارہ ہزار کلو میٹر سڑکیں بھی اس سیلاب کی نذر ہوگئی ہیں
افسوس کہ اس المیے میں بھارت نے ریسکیوکے لیے فوج کا استعمال کیا جنہوں نے عام مظلوم عوم کو بچانے کی بجائے سیاحوں اور اپنے لوگوں کو بچایا تاہم کشمیری نوجوانوں نے اس موقع پر مثالی کام کیا اور ریسکیو کے حوالے سے مسلسل کام کیا میں ان غیرت مند نو جوانوں کو اسلام اور پاکستان کی طرف سے سلام پیش کرتا ہوں۔اس دوران پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس چلتا رہا لیکن افسوس کہ مقبوضہ کشمیر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا ذکر تک نہ کیا اور کسی نے ہمدردی کے دو لفظ تک نہ بولے جو قابل افسوس ہے پاکستان کی محبت میں مرنے والوں کے ساتھ یہ بے مروتی مناسب نہیں حکومت انہیں یکسر بھول گئی ہے۔
جب تک کشمیر کا مسئلہ وہاں کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا ہم کو بھارت سے دوستی قبول نہیں ہے حکومت کشمیریوں کی امداد کے لیے ٹھوس اقدامات کرے اور بین الاقوامی اداروں سے اس سلسلے میں اپیل کرے اور ریلیف کے لیے راستے کھولے جائیں ۔ بین الاقوامی رفاعی ادارے بھی آگے آئیں امید ہے کہ موجودہ حکومت اہل کشمیر کو مایوس نہ ہونے دے گی ۔ اپوزیشن کی جانب سے اس حوالے سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد لانے کی کوشش کی گئی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ وزیر اعظم نواز شریف کو چاہئے کہ حریت کانفرنس کے پاکستان میں موجود رہنمائوں سے ملاقات کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں یہ 18 کروڑ عوام کی آواز ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر بھارت سے دوستی قبول نہیں ہے۔