مشی گن (جیوڈیسک) امریکہ میں منعقدہ ایک سیمینار کے مقررین نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا بات چیت کے ذریعے حل پاکستان ،بھارت کے ساتھ پورے جنوبی ایشیا اور امریکہ کے مفاد میں ہے۔ ’’ کشمیر : امن و انصاف کا وقت ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کے چیئرمین ڈاکٹر غلام نبی میر نے اپنے خطاب میں پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود 67 سالہ پرانے تنازعہ کشمیر کی افادیت و اہمیت پر روشنی ڈالی۔ سیمینار کا انعقاداسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ کے 51ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر میر نے کہا کہ عالمی برادری کو کشمیریوں کے نکتہ نظر کی اہمیت دینی چاہیے جو پاکستان اور بھارت حتیٰ کی عالمی برادری کے نکتہ نظر سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ممتاز برطانوی مصنفہ وکٹوریہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی برادری کو تنازعہ کشمیر کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ 1947میںبرصغیر تقسیم ہوا تو ریاست جموں و کشمیر تصفیہ طلب رہی جس کے باعث پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔ اسی وجہ سے دونوں ملک جوہری ہتھیار بنانے پر مجبو ر ہوئے۔ ایک خطیر رقم غربت، صحت، تعلیم و ترقی پر خرچ کرنے کے بجائے دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔
کشمیری رہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی نے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر دونوں ملک بات چیت نہیں کریں گے تومسئلہ کشمیر زیر بحث ٓانے کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ بات چیت سے ہی دونوں کے درمیان کشیدگی ختم ہو گی۔
کشمیریوں کی جدوجہد پر امن ہے اور 2008،2010میں چلنے والی احتجاجی تحریکیں اس کی ایک زندہ مثال ہیں۔ یہ امریکہ کے بھی مفاد میں ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہو۔ ناروے کی پارلیمنٹ کے ایک سابق رکن لارس رائس نے اپنے خطاب میں یہ واضح کیا کہ اب وقت آگیا ہے قربانیوں کا ثمر حاصل کیا جائے۔
ہمارا مشترکہ مقصد یہ ہونا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کا ایک ایسا پرامن حل نکالا جائے جو کشمیریوں کے مفاد اور انکی خواہشات کے مطابق ہو۔امریکہ سمیت عالمی برادی کشمیریوں کو مذاکرات میں شامل کرانے کیلئے بھارت اور پاکستان پر دبائو ڈالے۔
بھارت کو بھی اعتماد سازی کے اقدامات کرنے چاہئیں جن میں مقبوضہ کشمیر میںسیاسی نظر بندوں کی رہائی، کالے قوانین کی منسوخی ، فوجی بنکروں کا خاتمہ اور اظہار رائے کی آزادی شامل ہے۔